چین کو پاکستان میں فوجی اڈے بنانے کی بظاہر ضرورت نہیں: تجزیہ کار

(فائل)

خبر رساں ادارے، رائٹرز نے پینٹاگون کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ چین افریقی ملک، جبوتی میں اپنی فوجی تنصیبات قائم کرنے کے بعد بیرونی ملکوں میں مزید فوجی اڈے بنائے گا۔

امریکہ کے محکمہٴ دفاع کی ایک رپورٹ میں یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان ایک ایسا ملک ہو سکتا ہے جہاں چین اپنا فوجی اڈا قائم کرے۔

تاہم، پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے مستقبل میں دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات میں مزید اضافے کے باوجود، اس بات کا امکان نہیں کہ چین پاکستان میں اپنا کوئی فوجی اڈہ قائم کر سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے، رائٹرز نے پینٹاگون کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ چین افریقی ملک جبوتی میں اپنی فوجی تنصیبات قائم کرنے کے بعد بیرونی ملکوں میں مزید فوجی اڈے بنائے گا۔

چین کی فوجی استعداد کار سے متلعق امریکہ کے محکمہٴ دفاع کی طرف سے کانگرس کو پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ،"اس بات کا امکان موجود ہے کہ چین ان ملکوں میں اپنے مزید فوجی اڈے قائم کر سکتا ہے، جن کے ساتھ اس کے طویل عرصے سے دوستانہ اور یکساں اسٹریٹیجک تعلقات ہیں، جیسا کہ پاکستان۔"

پاکستان کی طرف سے تاحال اس رپورٹ پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا، اور اس بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا میں سامنے آنے والی خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

دوسری طرف، چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اس رپورٹ کو "قیاس آرائی" کہہ کر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں، لیکن ان کا ہدف کوئی تیسرا ملک نہیں ہے۔

دفاعی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے نہایت قریبی دفاعی تعلقات ہیں، اس لیے انہیں یہاں فوجی اڈے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی کے ’اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشز‘ کے پروفیسر ظفر جسپال نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ "جب گودار (بندرگاہ) مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دے گی تو گوادر کو وہ اپنی آبدوزوں کو ایندھن اور ہوا کے حصول کے لیے استعمال کریں گے ۔۔۔ مستقل فوجی اڈے کی انہیں اس لیے ضرورت نہیں ہے، کیونکہ فوجی اڈے بنا کر ان کا ہدف کون ہوگا اور وہ کس کو چیک کریں گے۔"

ظفر جسپال نے کہا کہ خطے میں چین کے مفاد کے تحفظ کے لیے پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔

اُن کے الفاظ میں، "پاکستان کی مسلح افواج اور (چین کی) پیپلز آرمی کا جو تعاون ہے وہ بہت مضبوط ہے۔۔۔ اسی لیے میں نہیں سمجھتا کہ وہ یہاں پر اڈے بنا سکتے ہیں، کیونکہ پاکستان تو پہلے ہی ان کے ساتھ ہر چیز میں تعاون کر رہا ہے۔"

پاکستانی فوج کے سابق لیفٹینٹ جنرل امجد شعیب نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں چین کی طرف سے مستقبل میں فوجی اڈے قائم کرنے کے امکان کو محض قیاس آرائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال، ان کے بقول، ’’ایسا ممکن نہیں ہے‘‘۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک امکان جو مجھے نظر آتا ہے اور اس میں مجھے وزن نظر آتا ہے کہ وہ گوادر کے نقطہٴ نظر سے ہے، جب ’سی پیک‘ وہاں جا کر مکمل ہوتا ہے ۔۔۔ اور شاید یہ ہوسکتا ہے کہ گوادر پر کوئی ان (چین) کی بحری موجودگی کی ضرورت پڑے۔ لیکن، ہو سکتا ہے وہ عارضی طور پر ایسا کریں ان کے جہاز آئیں اور چلے جائیں۔ لیکن، میرا اندازہ ہے کہ شاید مستقل اڈے وہ نہیں بنانا چاہیں گے۔"

واضح رہے کہ گزشتہ دسمبر میں گوادر بندرگاہ کے تحفظ کے لیے پاکستان نے ایک خصوصی بحری فورس کی بنیاد رکھی تھی جب کہ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے زمینی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی سکیورٹی فورسز بھی تیار کی گئی ہیں۔