افغان طالبان نے تصدیق کی ہے کہ اُنہوں نے افغانستان سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا سے متعلق امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس ضمن میں جمعے کو امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ ملاعبدالغنی برادر سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقات بھی کی تھی۔
ادھر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ ملکی آئین سے کسی صورت انحراف نہیں کریں گے جب کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عالمی برادری کی نگرانی میں ہونے والے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی ہو گا۔
افغان قانون سازی اسمبلی کی تیسری مدت کے آغاز پر ہفتے کو قانون سازوں سے خطاب میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات کی تاریخ سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ایک سمجھوتے پر پہنچا جا سکے۔
خیال رہے کہ طالبان اشرف غنی کی کابل حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کابل حکومت غیر قانونی اور امریکہ کے افغانستان پر قبضے کی علامت ہے۔ لہذٰا بین الافغان مذاکرات کے بعد ملک میں 'اسلامی' حکومت کا عمل میں آنا ناگزیر ہے۔
حال ہی میں یہ اطلاعات سامنے آئیں تھیں کہ زلمے خلیل زاد نے دورۂ کابل کے دوران افغانستان کے سیاسی مستقبل کے فیصلوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی عالمی کانفرنس بلانے پر زور دیا ہے جس میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔
صدر غنی کا عالمی کانفرنس بلانے کی تجویز کا ذکر کیے بغیر کہنا تھا کہ "میں کسی اور دروازے سے اقتدار میں آنے کے خواہش مندوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں سیاسی قوت حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہے جس کی چاپی افغانستان کے عوام کے پاس ہے۔"
اُنہوں نے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کو سرے سے مسترد کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بغیر اقتدار کی منتقلی پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
زلمے خلیل زاد کی دوحہ میں ملاقاتیں
زلمے خلیل زاد افغانستان کے تین روزہ دورے کے بعد دوحہ میں موجود ہیں۔ افغانستان میں اُنہوں نے کابل حکومت، سول سوسائٹی کے اراکین اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے وائس آف امریکہ کو جمعے کو تصدیق کی گئی کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان پہلی بار زلمے خلیل زاد کے ذریعے رابطہ ہوا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال 29 فروری کو امن معاہدہ طے پایا تھا۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس معاہدے پر نظرِثانی کا اعلان کر رکھا ہے۔
طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا تھا کہ نیٹو ریزولیوٹ سپورٹ مِشن کے کمانڈر جنرل آسٹن اِسکاٹ مِلر بھی خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں موجود تھے۔
محمد نعیم کا مزید کہنا تھا کہ فریقین کی طرف سے معاہدے پر عمل کرنے کے عزم کا اظہار کیے جانے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات اور افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان میں گزشتہ سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔
امن معاہدے کے تحت مارچ 2020 میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر کے بعد ستمبر میں شروع ہوئے تھے۔ لیکن ان میں کوئی خاص پیش رفت ہونے کے بجائے افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔
تشدد میں اضافے اور طالبان کے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ طور پر اپنے روابط برقرار رکھنے کے الزامات کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے جنوری میں دوحہ معاہدے پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا تھا۔
البتہ، اس کے بعد سے واشنگٹن نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تاہم زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورۂ کابل کے دوران اُن کی جانب سے دیگر آپشنز کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی ایک عالمی کانفرنس کے ذریعے تمام افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی شامل ہے۔
جمعے کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے عالمی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ بین الافغان مذاکرات کے نتائج افغان عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔