روہنگیا مسلمانوں کی آباد کاری کا منصوبہ التوا کا شکار

2017 میں بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے — فائل فوٹو

بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ اس کا ہزاروں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی دور دراز جزیرے میں منتقلی کا منصوبہ اقوام متحدہ کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔

میانمار میں تشدد اور عدم تحفظ کے خطرات کے پیش نظر ہجرت کر کے آنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش نے جنوب مشرقی سرحدی علاقوں میں پناہ دے رکھی ہے۔

حکام کے مطابق یہ پناہ گزین نامساعد حالات میں عارضی خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔ لہذٰا انہیں بہتر رہائش فراہم کرنے کے لیے حکومت نے چٹاگانگ سے 30 کلو میٹر دور 'بھاشن چار' نامی جزیرے میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

ناگہانی آفات اور ریلیف کے وزیر انعام الرحمٰن نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی حمایت نہ ملنے پر منصوبہ شکوک و شہبات کا شکار ہو گیا ہے۔

SEE ALSO: 'روہنگیا مسلمان اب بھی نسل کشی کے سنگین خطرے کا شکار'

انعام الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے حکومتی نمائندوں سے ملاقات کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ جزیرہ بہت دور ہے اور یہاں سمندری طوفان آنے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔

حکام کے مطابق اس جزیرے تک پہنچنے کے لیے تین گھنٹے کشتی کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کے یہ ادارے بنگلہ دیش میں 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کی انسانی بنیادوں پر خوراک اور رہائش کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

ان پناہ گزینوں میں 7 لاکھ 40 ہزار افراد 2017 میں بنگلہ دیش آئے تھے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے حکومت سے کہا تھا کہ اس جزیرے تک آمد و رفت کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کشتی سروس شروع کرنا لازمی ہو گی تاکہ خوراک اور دیگر ضروریات زندگی یہاں تک پہنچائی جا سکیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو بہتر رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لیے منتقلی کا منصوبہ بنایا گیا تھا — فائل فوٹو

انعام الرحمٰن نے اقوام متحدہ کے نمائندوں سے اس ضمن میں مزید مذاکرات ہونے کی تصدیق کی ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو اقوام متحدہ کے ایک نمائندے نے بتایا کہ ادارہ کسی بھی ایسے منصوبے کی حمایت نہیں کر سکتا جس کی اس کے پاس تکنیکی معلومات نہ ہوں۔

بنگلہ دیشی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ 3500 گھرانے حکومت کی اس پیش کش پر مطمئن ہیں اور نئی جگہ پر آباد ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔

انسانی حقوق کے ادارے (فورٹی فائی رائٹس) کا کہنا تھا کہ اس نے کیمپوں میں موجود 14 روہنگیا مسلمانوں سے مجوزہ حکومتی منصوبے سے متعلق پوچھا تھا۔ ان میں سے بیشتر نے اس کی مخالفت کی تھی۔

بعض پناہ گزینوں کو یہ خدشہ تھا کہ حکومت انہیں ایسی جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جہاں سمندری طوفان معمول ہیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے آباد کاری کا منصوبہ 2015 میں شروع کیا تھا— فائل فوٹو

روہنگیا مسلمان کون ہیں؟

روہنگیا مسلمان جنوب مشرقی ایشیا کے ملک میانمار جسے برما بھی کہا جاتا تھا، میں مقیم ہیں۔

میانمار کی سرحدیں بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاؤس اور چین سے ملتی ہیں۔

چھ کروڑ آبادی کے اس ملک میں 89 فی صد آبادی بدھ مت ماننے والوں کی ہے۔ دیگر 11 فی صد آباد میں مسلمان اقلیت بھی شامل ہے۔ جو صوبہ راکھائن میں مقیم ہیں۔

یہاں کے مسلمانوں کا یہ الزام ہے کہ میانمار کی حکومت ان کی نسل کشی کے ذریعے ان کا وجود ختم کرنا چاہتی ہے۔

روہنگیا مسلمان وقتاً فوقتاً بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ تاہم 2017 میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر مزاحمتی گروپ کے حملے کے بعد میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔

SEE ALSO: روہنگیا پناہ گزینوں کا میانمار واپس جانے سے انکار

اس کریک ڈاؤن کے دوران سیکڑوں دیہات کو نذر آتش کرنے کی رپورٹس سامنے آئیں۔

لاکھوں روہنگیا مسلمان اس کریک ڈاؤن کے باعث بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

اقوام متحدہ نے بھی اس صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا تھا۔

بنگلہ دیش نے 'ماڈل ویلج' منصوبہ کب بنایا؟

بنگلہ دیش نے چٹاگانگ سے 30 کلومیٹر دور 'بھاش چار' نامی جزیرے میں ان روہنگیا مسلمانوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔

اس منصوبے کا آغاز 2015 میں کیا گیا تاہم 2017 میں لاکھوں مہاجرین کی آمد کے باعث اس منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

بنگلہ دیشی حکام پر امید ہیں کہ اقوام متحدہ کے نمائندوں سے مذاکرات کے بعد اس مسئلے کا قابل عمل حل نکال لیا جائے گا۔