پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات سے پہلےانتخابی و سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے منشور بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور اسی سلسلے میں پانچ دینی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل ’ایم ایم اے‘ نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ اُس کی ترجیحات میں ملک کے آئین کے تحت اسلام کا نفاذ بھی شامل ہے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محض یہ نعرہ شاید ماضی کی طرح زیادہ پر اثر نا ہو۔
پاکستان کی پانچ دینی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل'ایم ایم اے' نے رواں ہفتے اپنے 12 نکات پر مشتمل انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اتحاد انتخاب میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوئے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کرے گا۔
ایم ایم اے کی سیکرٹری جنرل اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "متحدہ عمل کے منشور میں جو بنیادی طور ہمارے ہداف وہ وہی ہیں جو پاکستان کے آئین میں طے شدہ ہیں۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی نظریاتی اور جمہوری ملک بنانا، آئین کی بالادستی ہو، عدلیہ کی آزادی کی تسلیم ہو، قومی وسائل کی مساویانہ تقسیم ہوں اور قانون کی حکمرانی ہو۔"
سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کے منشور میں اسی نکتہ نظر کو بیان کیا ہے جس کا اعادہ ایم ایم اے میں شریک جماعتیں اکثر کرتی رہی ہیں۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ "پاکستان کی سیاست اور پالیسی کے بار ےمیں ایک نکتہ نظر ہے۔ اس کے بار ے میں ہمیں یہ پتا ہے کہ ایک مذہبی اساس اور بنیاد پر اصرار کرتے ہیں اور اسی سےمتاثر ہوتے ہیں اور اس کی عکاسی ان کے منشور میں بھی ہوتی ہے۔"
احمد بلال کا کہنا ہے کہ ایک تاثر یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی طرف سے کارروائی کرنے کےمعاملے کو 2002ء کےانتخابات میں اٹھا کر ’ایم ایم اے‘ نے اپنےحق میں استعمال کیا تھا۔
بقول اُن کے، "اب اس وقت اُس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہے کہ ایک مہم میں اسے اٹھا کر لوگوں کو متاثر کیا جائے لیکن آئندہ کی ان کی جو مہم ہوگی اس میں دیکھنا ہو گا کہ وہ لوگوں کو کس بنیاد پر(ووٹ کی ) اپیل کرتے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "بنیادی طور ان( ایم ایم اے) کی اپیل مذہب سے متعلق ہو گی یا یہ بتایا جائے گا کہ مذہب کو خطرہ ہے یا مذہب کی بنیاد پر جو کام ہیں یا سیکولر جماعتیں کس طرح مذہبی اقدار کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں تو اس طرح کا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ہمارے ہاں روایتی طور پر ہوتا رہا ہے۔"
تاہم، لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ 2002ء کے انتخاب میں ایم ایم اے کو امریکہ مخالف جذبات کی بجائے مذہبی جماعتوں کو ایک مشترکہ انتخابی اتحاد میں حصہ لینے کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔
متحدہ مجلس عمل کا اتحاد پہلی بار 2002ء میں تشکیل پایا تھا جس میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) جماعت اسلامی سمیت کئی دیگر مذبہی جماعتیں شامل تھیں اور اسی سال ہونے والےعام انتخابات میں ایم ایم اے نے ناصرف قومی اسمبلی کی60 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھیں بلکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی۔
تاہم، یہ اتحاد 2007ء میں غیر فعال ہو گیا اور اس میں شریک جماعتوں نے 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں الگ الگ حیثیت میں انتخاب میں حصہ لیا تھا۔