شام امن عمل کی بحالی، زیر حراست افراد کی رہائی کا مطالبہ

فائل

شامی مخالفین کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے نمائندوں کے ایک وفد نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا کی ٹیم سے اس معاملے پر ’’اصل اور ٹھوس پیش رفت‘‘ کا مطالبہ کیا ہے

شامی حزب مخالف کے کارکنان نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ شام میں زیر حراست لاکھوں افراد کی رہائی پر زور دیا جائے، تاکہ دم توڑتے ہوئے امن عمل میں جان ڈالنے کی کلیدی کوششوں میں مدد مل سکے۔

شامی مخالفین کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے نمائندوں کے ایک وفد نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا کی ٹیم سے اس معاملے پر ’’اصل اور ٹھوس پیش رفت‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ گروپ نے اس معاملےکا ذکر کیا ہے۔ شامی انقلاب کے قومی اتحاد اور خالد خوجہ کے اپوزیشن دھڑوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ امن عمل کے لیے ضروری اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر شام میں زیرِ حراست افراد کو رہا کیا جائے۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے سے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جا سکتا ہے۔

بقول اُن کے، ’’اس ضمن میں پیش رفت کے حصول سے، ہمیں مذاکراتی عمل میں مدد ملے گی اور ہم سیاسی حل کی جانب بڑھنے کے حوالے سے اعتماد سازی کے اقدامات کر سکیں گے، جیسا کہ محاصرہ توڑنے اور شام کے عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی فراہمی ممکن بنانا‘‘۔

اقوام متحدہ کی جانب سے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کے امدادی قافلے بھیجنے میں مدد ملے گی، تاکہ شام کے 19 محصور علاقوں میں پھنسے ہوئے 10 لاکھ سے زائد افراد کی مدد کی جاسکے، جب کہ گذشتہ ماہ اُن کی امداد کے کام میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

شام کے شمالی شہر، حلب میں تقریباً 275000 متاثرہ افراد کی امداد کے لیے اقوام متحدہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کئی قافلے روانہ کیے؛ لیکن اُسے مایوسی ہوئی، چونکہ کئی ہفتوں سے شہر کو حکومتِ شام، روس اور باغی افواج کے ہاتھوں بیشمار بم حملوں کا سامنا رہا ہے۔

خوجہ نے بتایا کہ حلب، دمشق اور دیگر محصور علاقوں میں امداد کی رسد پہنچانا؛ اور ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے اور سیاسی حل کے حوالے سے گفت و شنید کے لیے راہ ہموار کرے گی۔