مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شکست کیوں ہوئی؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں فیورٹ سمجھی جانے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کی شکست نے ملکی سیاست کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔ وہیں یہ بحث بھی جاری ہے کہ آخر پنجاب میں بڑا ووٹ بینک رکھنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو ان اہم انتخابات میں شکست کیوں ہوئی؟

پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد اب تحریکِ انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے تیار ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) نے دوبارہ اپوزیشن بینچز میں بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے۔

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کو دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سرِ فہرست ہے۔ ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں ملنے کے بعد اب پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد 178 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اب 167 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستوں کو ملا کر تحریکِ انصاف کو پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کے لیے درکار 186 کا ہدف کرنے میں بظاہر کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ حالیہ ضمنی انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے ریاستی اداروں کو سراہنا چاہیے جن سے اِن اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے۔

ن لیگ کی مقبولیت کم ہونے کی وجہ؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی 20نشستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کی اصل وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی تین ماہ کی حکومت اور اُن کے فیصلوں کی وجہ ہے جس میں مہنگائی سرِفہرست ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جب عمران خان وزیرِاعظم تھے تو مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات جیت جاتی تھی۔ مہنگائی کے خلاف لوگ پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دیتے تھے۔ اَب یہی تبدیلی آئی ہے اور اِس تبدیلی نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کم کی ہے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اِن تین ماہ میں مسلم لیگ (ن) اپنا بیانیہ درست طریقے سے نہیں بنا سکی اور اِسے عوام تک نہیں پہنچا سکی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) 2018 کے عام انتخابات میں ان حلقوں سے ہاری تھی۔

SEE ALSO: پنجاب ضمنی انتخابات: تحریکِ انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں کمی کی۔

اُن کے بقول جب مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں تھی تو اُن کا یہ بیانیہ تھا کہ تحریکِ انصاف کی بدانتظامی مہنگائی کی اصل وجہ ہے, لیکن جب ان کو موقع ملا تو وہ بھی مہنگائی میں کمی نہیں لا سکے تھے۔

پاکستان میں انتخابی عمل اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ جب سے پاکستان میں حالیہ سیاسی عدم استحکام ہوا ہے مسلم لیگ (ن) کی پالیسی غلط رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی حکومت کے ساڑھے تین سال پورے کر چکے تھے اور عوامی سطح پر اُن کی مقبولیت کم ہو رہی تھی۔

اُن کے بقول ان حالات میں عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا جو فیصلہ ہوا اس سے لگتا ہے کہ یہ ایجنڈا کسی اور کا تھا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ جب بھی کسی کو ہٹایا جاتا ہے تو وہ 'سیاسی شہید' بن جاتا ہے اور عوام میں ہمدردی بڑھ جاتی ہے۔ لہذٰا عمران خان نے اپنے ہٹائے جانے کے بعد جو بیانیہ بنایا، اسے عوام نے تسلیم کیا۔

کیا مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار کمزور تھے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امیدواروں کا چناؤ درست نہیں تھا۔

اُن کے بقول تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے کے عمل کو مسلم لیگ (ن) کے روایتی ووٹرز نے پسند نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے باہر نہیں نکلے۔

کیا نواز شریف کی موجودگی سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہو سکتا تھا؟

مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اگر نواز شریف صاحب واپس آ جاتے تو مسلم لیگ (ن) زیادہ بہتر پرفارم کرتی۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے جو فیصلے کیے وہ اتحادیوں کی مشاورت کے ساتھ کیے تھے، لہذا اس کا بوجھ سب جماعتوں کو اُٹھانا پڑے گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے نتائج میں نواز شریف کی غیر موجودگی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ وہ خود ایک سیاسی نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی غیر موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹر کم تعداد میں باہر نکلا ہے۔ اُن کے بقول (ن) لیگ میں بہت سی شخصیات ہیں لیکن ووٹ نواز شریف کو ہی ملتا ہے۔


احمد بلال محبوب، سہیل وڑائچ اور مجیب الرحمٰن شامی کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ نواز شریف ہو گا تو ووت ملے گا۔ سیاسی جماعتوں کو بطور سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آنا چاہیے۔ اُنہیں سیاسی شخصیت پرستی سے باہر نکلنا چاہیے۔ ورنہ تو سیاسی جماعتیں بیساکھیوں پر کھڑی رہ جائیں گی۔

اداروں کا کردار

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت ہی کم صاف شفاف انتخابات ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات اُن صاف شفاف انتخابات میں سے ایک تھا جس میں اداروں کی جانب سے کوئی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں اکا دکا واقعات ہوئے، لیکن مجموعی طور پر یہ انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے۔

الیلشن کمیشن کے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اُس کا استعمال اچھے طریقے سے کیا گیا۔ جس میں سیاسی جاعتوں کی جانب سے ووٹنگ رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں پولیس، الیکشن کمیشن اور تمام ریاستی اداروں نے انتخابات کے انعقاد میں بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ اِن سمیت تمام اداروں کو سراہا جانا چاہیے۔