صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ پر سیاسی و سماجی حلقوں کا شدید ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئے سال کے آغاز پر اپنی پہلی ہی ٹوئٹ میں پاکستان سے متعلق سخت زبان استعمال کیے جانے پر پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے برسوں تک اربوں ڈالر امداد کے بدلے امریکہ کو صرف جھوٹ اور دھوکہ ہی ملا۔

اس ٹوئٹ کے سامنے آتے ہی پاکستانی سیاستدانوں کی طرف سے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں ردعمل کا اظہار شروع ہو گیا تھا اور یہ سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔

حکومت کی طرف سے اس کا جواب دینے کے لیے منگل کی شام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس سے قبل کہا گیا تھا کہ یہ خصوسی اجلاس بدھ کی دوپہر کو ہو گا۔

قومی سلامتی کے اجلاس سے کچھ گھنٹے قبل ہی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس بھی ہوئی جس میں سلامتی کی صورتحال کے علاوہ قومی سلامتی کمیٹی میں فوج کی طرف سے پیش کرنے کے لیے مجوزہ سفارشات پر بھی غور کیا گیا۔

مرکز میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر راہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر تمام سیاسی راہنماؤں کو مشاورت کرنی چاہیے۔

"پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، سارے سینیئر سیاستدان بیٹھیں بات کریں، یہ مسئلہ کسی ایک فرد یا پارٹی کا نہیں ہے یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔"

دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے امریکی صدر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ماضی کی حکومتوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے وہ اس جنگ میں شامل ہونے سے باز رہنے کا کہتے رہے ہیں اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کے بعد پاکستان کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو افغانستان کی جنگ اور پاکستان کے حالات کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہے۔

"یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک وقت میں ڈیرھ لاکھ نیٹو کے فوجی تھے افغانستان میں، دولاکھ سے زائد افغان فوج اور یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کہ یہ 16 سال میں اس لیے (جنگ) نہیں جیتے کیونکہ پاکستان سے چند ہزار لوگوں کی امداد (دراندازی) ہو رہی تھی، یہ کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں جو حقائق جانتا ہے۔"

پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کو دیر گئے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو طلب کر کے صدر ٹرمپ کے بیان پر شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں چلے آ رہے تناؤ میں مزید اضافہ ہو گا تاوقتیکہ ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کے موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "جس طرح کا انداز امریکہ نے ابھی اپنایا ہوا ہے کہ پہلے تو یہ بہت زیادہ سنگین پوزیشن پیش کرتے ہیں اور حکومتیں اگر اس کو برداشت کر لیں تو پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔۔۔ادھر پاکستان کی فوج بھی خاصی واضح پوزیشن لیے ہوئے ہے کہ ہم نے جو کرنا تھا کر لیا اور ہماری طرف سے کوتاہی نہیں ہے۔"

ان کے خیال میں امریکہ کو ہی دیکھنا ہوگا کہ یا تو وہ اپنے الزامات کے لیے ثبوت پیش کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے۔

صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ پر اپنے ردعمل میں پاکستان کی وزارت دفاع کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 16 برسوں میں امریکہ کو القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین، فضائی حدود اور ایئربیسز فراہم کیں لیکن اس کے بدلے پاکستان کو صرف امریکہ کی طرف سے بداعتمادی ملی۔