طلاق ثلاثہ بل کی منظوری پر ملا جلا رد عمل

بھارت کے ایوان زیریں سے تین طلاق کے بل کی منظوری کے خلاف نئی دہلی میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ 4 جنوری 2018

طلاق ثلاثہ بل کی منظوری پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسے ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق اب مسلم خواتین کو با عزت طریقے سے جینے کے مواقع ملیں گے۔

وزیر اعظم نریند رمودی نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کے ساتھ صدیوں سے روا ایک تاریخی غلطی کی اصلاح کر دی گئی اور اسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ جب بیس مسلم ملکوں میں طلاق بدعت پر پابندی ہے تو بھارت جیسے سیکولر ملک میں کیوں نہیں۔

طلاق ثلاثہ سے متاثرہ خواتین اور عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے بھی اس کا خیرمقدم کیا ہے۔

طلاق بدعت کو سب سے پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والی 38 سالہ سائرہ بانو نے کہا کہ جب انہوں نے مقدمہ کیا تھا تو ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا ایشو بن جائے گا۔

بل کے پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے پر انہوں نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ اب مسلم خواتین کو انصاف ملا ہے اور اس سے لاکھوں عورتوں کو فائدہ پہنچے گا۔

عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کرنے والی ایک تنظیم بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی چیئرپرسن ذکیہ سومن نے کہا کہ تین طلاقیں دینے والے شوہر جیل میں ڈالنا ضروری ہے، جبھی ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن جان دیال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیک وقت تین طلاقیں ایک قابل مذمت قدم ہے۔ لیکن یہ بھی کہا کہ جس طرح اسے منظور کرایا گیا ہے اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

مسلم مذہبی شخصیات نے بل کی مخالفت کی اور اسے مسلم خاندانوں کو نشانہ بنانے والا قرار دیا۔ ان کے مطابق اگر کوئی ہندو اپنی بیوی کو طلاق دے تو اسے ایک سال کی جیل اور مسلمان دے تو اسے تین سال کی جیل، یہ کون سا انصاف ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی کہتے ہیں کہ اس بل کی منظوری سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

فرنگی محل عیدگاہ لکھنؤ کے امام و خطیب مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی مجموعی شرح صفر اعشاریہ پانچ فیصد اور تین طلاقوں کی شرف صفر اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ ان کے خیال میں یہ کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکرٹری مولانا ولی رحمانی کہتے ہیں کہ یہ ایک عجیب و غریب قانون ہے۔

بورڈ کے ایک رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک سول معاملے کو فوجداری معاملہ بنا دیا جو کہ اس کا سب سے بڑا سقم ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ طلاق دینے والے شوہر کو جیل ہو جائے گی مگر حکومت نے اس کے بچوں کے نان نفقے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔

ان کے مطابق جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دینے پر ان کا اطلاق ہی نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ کہ کوئی جرم نہیں ہو گا اور جب جرم نہیں ہو گا تو سزا کس بات کی دی جا رہی ہے۔

بعض قانونی ماہرین کے مطابق اگر اسے سپریم کورٹ میں چینلج کیا جائے تو یہ کالعدم ہو سکتا ہے۔

دار العلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کے مطابق یہ بل شریعت میں مداخلت ہے۔ جب کہ سفیان نظامی کے خیال میں اس سے مسلم خواتین کے مسائل میں اور اضافہ ہو گا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں بیک وقت دی جانے والی تین طلاقوں کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کوئی تین طلاقیں دیتا ہے تو وہ واقع ہی نہیں ہوں گی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بھی طلاق ثلاثہ کے 572 معاملات روشنی میں آئے ہیں۔

اس بل میں طلاق ثلاثہ کو پہلے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا مگر اب اس میں ترمیم کر کے اسے قابل ضمانت بنایا گیا ہے۔

کوئی متاثرہ خاتون یا اس کا کوئی خونی رشتے دار طلاق ثلاثہ کی شکایت مجسٹریٹ کے سامنے کر سکتا ہے۔ وہ جانچ کرنے کے بعد شوہر کو جیل بھیج دے گا۔ لیکن اس میں یہ بھی انتظام ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے گا تو شوہر کو ضمانت دے دے گا۔

بل میں شوہر کے جیل چلے جانے کے بعد اس کے بچوں کے نان نفقے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ یعنی حکومت نے ایسی متاثرہ خواتین کی مالی امداد کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔