راولپنڈی میں انسدادِ سائبر کرائم کی عدالت نے توہینِ مذہب کے الزام میں 26 سالہ خاتون کو سزائے موت سنا دی ہے۔ انیقہ عتیق کو 24 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
انیقہ عتیق پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک اور ایپلیکیشن واٹس ایپ سمیت کئی سوشل میڈیا سائٹس پر توہینِ مذہب کی، جو عدالت کی کارروائی میں ثابت ہوئی۔
انسدادِ سائبر کرائم عدالت راولپنڈی کے جج عدنان مشتاق نے اس سلسلہ میں گذشتہ روز محفوظ کیا فیصلہ سنایا۔
انیقہ عتیق کے خلاف محمد حسنات فاروق کی مدعیت میں 13 مئی 2020 کو توہینِ مذہب اور انسدادِ سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کے فوری بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مدعی کی جانب سے مذکورہ مقدمے کی پیروی راجہ عمران خلیل ایڈووکیٹ نے کی۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راجہ عمران خلیل نے کہا کہ اس کیس میں انیقہ عتیق نے مذہبی شخصیات کے خاکے بنائے اور واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگانے سمیت اس نے اپنے چار موبائل نمبرز سے مختلف لوگوں کو ایسا مواد بھیجا جس میں مذہبی شخصیات کے خاکے بنانے کے علاوہ ان کے لیے توہین آمیز کلمات استعمال کیے گئے جن لوگوں کو یہ مواد بھیجا گیا ان میں سے ایک شخص حسنات فاروق نے ان کے خلاف سائبر کرائم ونگ میں مقدمہ درج کرایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انیقہ عتیق کی طرف سے توہین آمیز مواد پر مشتمل 36 صفحات کی چیٹ اور دیگر دستاویزات عدالت کو فراہم کی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انیقہ عتیق کا ایک لیپ ٹاپ، موبائل فون، موبائل سمز، میموری کارڈ، راؤٹر، یو ایس بی ڈرائیوز کو بھی قبضہ میں لیا گیا تھا جن میں موجود توہینِ آمیز مواد ثابت ہوا۔ کیس کے دوران ٹیکنیکل انالسز رپورٹ، ڈیجیٹل فرانزک رپورٹ اور دیگر ڈیٹا تمام تکنیکی شواہد کے ساتھ ثابت ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق عدالت میں انیقہ عتیق نے بیان دیا کہ پب جی گیم کھیلنے کے دوران اس کیس کا مدعی اور دیگر دو غیر ملکی افراد ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اس دوران مدعی خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتا رہا اور جان بوجھ کر اس کو مختلف باتوں پر اکساتا رہا اور مختلف چیزیں جمع کرتا رہا۔
تاہم انیقہ عتیق نے عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں اور ایک مسلمان خاندان میں شادی ہوئی۔ وہ توہینِ مذہب کا سوچ بھی نہیں سکتیں البتہ اگر ان سے دانستہ یا کسی کے اکسانے پر کوئی توہین ہوئی ہے تو وہ خدا سے معافی کی طلب گار ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمہ نے دورانِ مقدمہ اپنے دفاع میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق انیقہ عتیق پر الزام تھا کہ انہوں نے واٹس ایپ پر اپنے اسٹیٹس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے استعمال کیے۔ اس کے علاوہ خاتون نے مزید خاکے اور یوٹیوب کے لنکس بھی مدعی کے ساتھ شئیر کیے جن میں توہین آمیز مواد موجود تھا۔
عدالت نے اس کیس میں ایف آئی اے کی طرف سے درج مقدمے کے بعد تفتیشی افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جنہوں نے اس بارے میں تصدیق کی۔
عدالت نے تمام شواہد کی تصدیق کے بعد عنیقہ عتیق کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانہ، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-اے کے تحت 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298-اے کے تحت تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ جب کہ انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی دفعہ 11 کے تحت سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ئیں شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایڈوکیٹ راجہ عمران خلیل کا کہنا تھا کہ اس کیس کے دوران ملزمہ کے بھارتی شہری کے ساتھ رابطے بھی سامنے آئے تھے تاہم اس بارے میں مکمل تصدیق نہ ہو سکی اور امکان ہے کہ اس میں کئی ملک دشمن عناصر بھی شامل ہیں۔
اس بارے میں انیقہ عتیق کے اہلِ خانہ کے ساتھ رابطہ کی کوشش کی گئی تاہم کوشش کے باوجود کسی شخص سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔