'این ڈی ٹی وی' کے ایڈیٹر کا استعفی، بھارت میں آزادیٔ صحافت موضوعِ بحث

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے معروف اینکر اور گروپ ایڈیٹر رویش کمار کے استعفے کا معاملہ بھارت میں موضوعِ بحث ہے۔ بعض حلقے ملک میں آزادیٔ صحافت کے مستقبل پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ بعض افراد رویش کمار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس سے قبل اس نیوز چینل کو بھارت کے امیر ترین شخص او رحکومت کے قریبی سمجھے جانے والے بزنس مین گوتم اڈانی کی جانب سے خرید لیے جانے کے بعد اس کے بانی ڈائریکٹرز پرنے رائے اور ان کی اہلیہ رادھیکا رائے نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

مبصرین کے مطابق این ڈی ٹی وی کے بکنے اور پرنے رائے ا و رادھیکا رائے کے استعفوں پر سوشل میڈیا پر اتنی گفتگو نہیں ہوئی جتنی کہ رویش کمار کے استعفے پر ہو رہی ہے۔ آج اگر کوئی شخص سب سے زیادہ موضوع بحث ہے تو وہ رویش کمار ہیں۔

ماہرین کے مطابق جہاں ایک طرف ان کے حامیوں کی جانب سے ان کو نیک خواہشات پیش کی جا رہی ہیں وہیں مبینہ حکومت نواز صحافیوں اور افراد کی جانب سے ان پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔

بیشتر یو ٹیوبرز نے رویش کمار کے استعفے پر پروگرام کیے۔ یہاں تک کہ کچھ اسٹینڈ اپ کامیڈینز نے بھی اپنے یو ٹیوب چینل پر رویش کمار کے حق میں آواز بلند کی اور جہاں ان کی آزاد صحافت کی ستائش کی وہیں اانکے ناقدین کی مذمت بھی کی۔


رویش کمار نے استعفیٰ دینے کے بعد جمعرات کو اپنے یو ٹیوب چینل ”رویش کمار آفیشل“ پر تقریباً نصف گھنٹے کا بیان دیا اور موجودہ صحافت پر اپنی رائےپیش کی۔ تاہم انہوں نے این ڈی ٹی وی کے خریدے جانے اور اپنے استعفے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اُنہوں نے کہا کہ آج ہر شخص یہ دعویٰ کر رہا ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جو صحافت کو روندنے کی کوشش کرنے والوں کے ماتحت کام کر رہے ہیں، کہ وہ حقیقی صحافت کر رہے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ آج حقیقی صحافت مر رہی ہے۔ آج بھارت کا میڈیا بدل گیا ہے۔

گوتم اڈانی کی جانب سے این ڈی ٹی وی کو خریدنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج کی شام ایک ایسی شام ہے جہاں پرندے کو اس کا گھونسلہ نظر نہیں آرہا ہے کیوں کہ اس کا گھونسلہ کوئی اور لے گیا ہے۔ لیکن اس کے سامنے تھک جانے تک ایک کھلا آسمان ضرور نظر آرہا ہے۔

اُنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے ناظرین سے کہا کہ وہ جب میرے بارے میں کوئی تجزیہ کریں تو اس وجہ سے میرے ساتھ ہمدردی نہ جتائیں کہ میں شروع میں اس چینل میں خطوط ترتیب دیتا تھا۔

رویش کمار این ڈی ٹی وی سے گزشتہ 26 برس سے منسلک رہے ہیں۔ وہاں انہوں نے ناظرین کے خطوط مرتب کرنے سے اپنے کام کا آغاز کیا اور گروپ ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے۔

ان کے پروگرام ’رویش کی رپورٹ‘ اور ’پرائم ٹائم‘ کافی مقبول ہوئے۔ رات میں نو بجے آنے والے ان کے پروگرام پرائم ٹائم کو لاکھوں افراد دیکھتے تھے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جمعرات کو یو ٹیوب چینل پر ان کے بیان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد چند گھنٹوں کے اندر دس لاکھ سے زائد ہو گئی۔

رویش کمار کے استعفے پر ان کے ساتھ کام کرنے والوں اور دیگر صحافیوں نے بھی ٹوئٹر پر اپنے خیالات پیش کئے۔ سینئر صحافی اور این ڈی ٹی وی کی سابق رپورٹر سوناکشی چکرورتی کا کہنا ہے کہ ان سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آج کے وقت میں رویش کمار جیسا کوئی صحافی نہیں ہے اور وہ صحیح کہتے ہیں۔


این ڈی ٹی وی کے رپورٹر سوربھ شکلا کہتے ہیں کہ جب میں فیلڈ میں جاتا ہوں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ میں رویش کمار کے چینل سے ہوں۔ میرے جواب پر ان کے چہروں پر ایک قسم کے فخر کے تاثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ لوگ رویش کمار کے پاس اپنا سلام پہنچانے کے لیے کہتے ہیں۔

معروف صحافی اور ایک نیوز چینل سے ملازمت ختم کیے جانے کے بعد اپنا یو ٹیوب چینل چلانے والے اجیت انجم کہتے ہیں کہ مجھے رویش کمار کی صحافتی لیاقت، بیباکی، انداز کار، ان کی زبان اور ان کے لب و لہجے پر رشک آتا ہے۔

دیگر متعدد ٹوئٹر صارفین نے بھی رویش کمار کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ معروف اسٹینڈ اپ کامیڈین راجیو نگم کا کہنا ہے کہ رویش کمار نے اگر چہ این ڈی ٹی وی چھوڑ دیا ہے لیکن ان کی ’رویشیت‘ زندہ رہے گی۔

لیکن اسی کے ساتھ ایسے کئی نیوز چینلز کے اینکرز نے جن کو حکومت کا حامی سمجھا جاتا ہے، رویش کمار کے استعفے پر اظہار مسرت کیا اور اپنے انداز میں ان پر نکتہ چینی کی۔ جب کہ این ڈی ٹی وی کے سابق اینکر ابھیسار شرما نے ایسے صحافیوں کی مذمت کی اور رویش کی حمایت کی ہے۔

تجزیہ کاروں کی جانب سے اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اب بھارت میں آزاد صحافت پر خطرات کے بادل زیادہ گہرے ہو گئے ہیں اور کیا اب ملک سے آزاد صحافت ختم ہو جائے گی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار معصوم مرادآبادی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اب بھارت میں آزاد صحافت ختم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ آج حقیقی صحافت کے سامنے کئی چیلنجز ضرور ہیں لیکن انہیں امید ہے کہ یہ چیلنجز ایک دن ختم ہو جائیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ رویش کمار پہلے بڑے صحافی تھے مگر حکومت کے آگے جھکنے کے بجائے استعفیٰ دینے کے بعد وہ اس وقت بھارت کے سب سے بڑے صحافی بن گئے ہیں۔

اُنہوں نے این ڈی ٹی وی سے استعفیٰ دیا ہے صحافت سے نہیں۔ اب وہ اپنے یو ٹیوب چینل سے اور مضبوط انداز میں لوگوں تک اپنی آواز پہنچائیں گے۔

ان کے مطابق اس وقت سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا سے زیادہ طاقت ور بن گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ آج وہی مین اسٹریم میڈیا بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گوتم اڈانی کی جانب سے این ڈی ٹی وی کو خریدنے اور رویش کمار کے استعفیٰ کے بعد آزاد صحافت ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اسے نئی طاقت ملے گی۔

سینئر تجزیہ کار انوراگ چترویدی کہتے ہیں کہ آج حکومت کی جانب سے آزاد صحافت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ این ڈی ٹی وی آزاد صحافت کا علمبردار تھا اسے ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کے بقول وہ حقیقی صحافت کا ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ تھا جسے بجھایا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ این ڈی ٹی وی پر قبضے کے بعد اب حکومت ان آزاد نیوز ویب سائٹس کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جن میں دی وائر، دی پرنٹ، دی کوئینٹ اور نیوز کلک وغیرہ جیسے نجی ادارے شامل ہیں۔

دیگر تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آج میڈیا کے سامنے نئے قسم کے چیلنجز آگئے ہیں لیکن میڈیا اپنا وجود بچائے رکھنے کے لیے ان چیلنجز کا بھی مقابلہ کرے گا اور ایک نئی شکل و صورت میں ابھر کر سامنے آئے گا۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں آزادیٔ صحافت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کا حصہ ہے۔