معروف سندھی قوم پرست رہنما اور 'قومی عوامی تحریک' کے بانی رسول بخش پلیجو کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی عمر 88 برس تھی۔
رسول بخش پلیجو کی تدفین جمعرات کو ان کے آبائی قصبے جنگ شاہی، ٹھٹھہ میں کی جائے گی۔
بائیں بازو کے نظریات کے حامل رسول بخش پلیجو کا شمار سندھ کے ایسے قوم پرست سیاست دانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے علیحدگی کا نعرہ لگانے کے بجائے ملک کے آئین کے تحت حقوق کی بات کی۔
رسول بخش پلیجو ٹھٹھہ کے ایک گائوں منگر خان پلیجو میں 21 فروری 1930ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے مکمل کی اور پھر سندھ لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
رسول بخش پلیجو کو اردو اور سندھی کے علاوہ انگریزی، ہندی، عربی، بلوچی، بنگالی، سرائیکی، پنجابی اور فارسی پر بھی عبور تھا۔ وہ سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے وکیل، دانش ور، ادیب اور شاعر بھی تھے جنہوں نے سندھی زبان میں دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
رسول بخش پلیجو 'نیشنل عوامی پارٹی' کے بانی رکن تھے جس پر بعد میں آئینی ترمیم کے ذریعے پابندی عائد کردی گئی تھی.
نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما عبدالولی خان سے اختلافات کے بعد رسول بخش پلیجو نے 'قومی عوامی تحریک' کے نام سے اپنی جماعت قائم کی۔
خرابیٔ صحت کی کے باعث وہ چند سال قبل عملی سیاست سے دستبردار ہوگئے تھے اور پارٹی کی سربراہی اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کو سونپ دی تھی جو تاحال پارٹی کے سربراہ ہیں۔
نظریاتی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھنے کے باوجود 'قومی عوامی تحریک' کئی انتخابات میں پنجہ آزمائی کے باوجود اب تک انتخابی سیاست میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے۔
رسول بخش پلیجو جنرل ضیا الحق کے دور میں سندھ میں چلنے والی 'ایم آر ڈی' تحریک کے اہم رہنما تھے۔ انہوں نے مارشل لا دور میں اخبارات پر قدغن لگانے کے خلاف بھی بھرپور جدوجہد کی۔ جس کے نتیجے میں طویل قید کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے 1981ء میں رسول بخش پلیجو کو ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دیا۔
وہ فوجی صدر پرویز مشرف کے بھی کڑے ناقد تھے اور ان کے خلاف چلنے والی سیاسی مہمات میں پیش پیش رہے۔