’رحمٰن ملک پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل تھے‘

رحمان ملک (فائل فوٹو)

آپ کی کتاب میں نے الگ سے رکھی ہے۔ آپ کو بھجوا بھی سکتا تھا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوجائے،اس لیے یہ کتاب آپ کو بھجوا نہیں رہا بلکہ چائے کا ایک کپ پلانے کے ساتھ آپ کوخود دستخط کرکے کتاب دوں گا۔

یہ الفاظ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کے تھے جو انہوں نے اپنی وفات سے تین ماہ قبل مجھ سے کہے۔ مصروفیت اور پھر ان کی بیماری کی وجہ سے یہ ملاقات کبھی نہ ہوسکی اور رحمان ملک اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

ہر وقت میڈیا کو دستیاب اور خبر کی اہمیت سمجھنے والے رحمان ملک اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

ان کے ترجمان ریاض طوری نے ایک ٹوئٹ میں ان کی وفات کی تصدیق کی۔ رحمان ملک گزشتہ دو ماہ کے عرصہ سے علیل تھے اور کرونا کے بعد پھیپھڑوں میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرگئے۔

رحمان ملک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک انسان جنہوں نے نادرا میں امیگریشن ایجنٹ سے وزیرداخلہ تک کا سفر طے کیا اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے۔

اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کا اپنی پارٹی کے ساتھ تعلق ماضی جیسا نہیں رہا تھا اور انہیں اہم اجلاسوں میں بھی نہیں بلایا جارہا تھا۔ کئی سال تک لگاتار سینیٹر رہنے والے رحمان ملک کو آخری سینیٹ انتخاب میں نظر انداز کیا گیا اور ان کی سینیٹر شپ ختم ہوگئی جس کے بعد آخری دنوں میں وہ اپنے گھر تک محدود رہے اور زیادہ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہے۔

رحمان ملک ایک زندہ دل اور دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کے شوقین انسان تھے۔ میڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر رہنے کو وہ اپنی ترقی کا راز سمجھتے تھے ۔ اس لیے کوئی بھی صحافی ان سے کسی میڈیا ٹاک میں کوئی بھی سخت سوال کرلیتا تو اس سے ناراض نہ ہوتے تھے۔ بھارت میں ایک دورہ کے دوران ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک دن میں انہوں نے دس مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیے۔ تاج محل ہوٹل نئی دہلی میں رحمان ملک کے لیے پینافلکس لگا کر سٹوڈیو بنا دیے گئے اور رحمان ملک لگاتار کئی گھنٹوں تک انٹرویوز دیتے رہے اور بولتے رہے۔

اسلام آباد میں بھی ان کی وزارت داخلہ کا دور ایک سخت ترین دور تھا جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی اور ہر دھماکے کے بعد وزیرداخلہ ٹی وی چینلز پر آکر ان دھماکوں کے خلاف اپنی کوششوں کی بات کرتے۔ آپریشنز اگرچہ فوج کررہی تھی لیکن جواب وزیرداخلہ رحمان ملک دیا کرتے تھے۔ سخت سے سخت سوال پر بھی رحمان ملک کے ماتھے پر شکن کبھی نہیں دیکھی۔

اسلام آباد کے سینئر صحافی اور رحمان ملک کی وزارت داخلہ کا دور کور کرنے والے اعزاز سید کہتے ہیں کہ رحمان ملک پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے والی شخصیت تھے اور آخر میں پیپلز پارٹی کے بعض لیڈر سمجھتے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور پارٹی معاملات سے انہیں دور کیا گیا۔رحمان ملک اس بات کا گلہ اپنی نجی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔

اعزاز سید نے کہا کہ رحمان ملک اپنی جماعت کے ساتھ بہت وفادار تھے۔ جب انہیں پارٹی کی طرف سے سینیٹ کا ٹکٹ نہ ملا تو میں نے ان سے رابطہ کیا اور اس بارے میں انٹرویو کا کہا تو رحمان ملک نے منع کردیا اور کہا کہ اگرچہ پارٹی نے میرے ساتھ زیادتی کی لیکن اسی پارٹی کی وجہ سے میں ماضی میں سینیٹر بنا، وزیر بنا، عزت کمائی، صرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی کو بدنام نہیں کروں گا، مجھے یقین ہے کہ وہ میری خدمات کا دوبارہ اعتراف کریں گے۔

اعزاز سید نے کہا کہ وزارت داخلہ میں بھی وہ پارٹی کے وفادار رہے، کئی مواقع پر انہیں پارٹی تبدیل کرنے کا موقع ملا، میمو کمیشن کے موقع پر ان کی جماعت کا موقف اسٹیبلشمنٹ کے موقف کے خلاف تھا لیکن انہوں نے اپنی جماعت سے دوری اختیار نہیں کی اور آخری وقت تک ساتھ کھڑے رہے۔

رحمان ملک ایک متحرک اور ذمہ دار وزیر تھے۔ ان کے آخری دور میں اگرچہ پارٹی نے انہیں دور کردیا لیکن وہ خود پارٹی کے ساتھ ہی رہے۔

بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اعزاز سید نے کہا کہ رحمان ملک، نصیر اللہ بابر کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے قریب آئے۔ انہوں نے اصغر خان کیس بنایا اور اس کیس میں انہوں نے اسد درانی کا بیان لیا جس کے بعد اسلم بیگ کے خلاف یہ کیس بنا کہ ملٹری لیڈر شپ نے کیسے بے نظیر بھٹو کے خلاف کام کیا۔ بے نظیر کی ہلاکت کے بعد انہوں نے آصف علی زرداری کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور ان کے بہت قریبی ساتھیوں میں شامل رہے۔ لیکن ان کی زندگی کے آخری دور میں پارٹی نے انہیں دور کردیا تھا۔

رحمان ملک اسلام آباد میں ایف آئی اے امیگریشن میں کام کرتے رہے اور یہاں مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر پہنچے اور اس زمانے میں شریف خاندان کے خلاف کارروائیوں پر انہیں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہی کے حکم پر نوازشریف کے والد میاں شریف کو زبردستی ٹرک میں ڈال کر لے جایا گیا۔

رحمان ملک کے کردار پر بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت غائب ہو جانے پر بھی شدید اعتراضات کیے گئے۔ جس وقت بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک حملے میں ہلاکت ہوئی، اس وقت رحمٰن ملک جائے وقوعہ سے نکل کر ایف ایٹ زرداری ہاؤس آگئے تھے، بطور چیف سیکیورٹی افسر اپنی لیڈر کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی اور ان کے ٹی وی چینلز پر بے نظیر بھٹو کی خیریت کے بارے میں بیپرز پر شدید تنقید ہوئی۔ تاہم، پارٹی کے اندر وہ مضبوط رہے۔

رحمان ملک کی وفات پر حکومت اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے افسوس کا اظہار کیا گیاہے۔ رحمان ملک نے پسماندگان میں بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ انہیں جمعرات کی دوپہر اسلام آباد میں سپردخاک کیا جائے گا۔