سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے سے پہلے جسے دونوں ملکوں میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے، پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی، جو اس وقت سعودی قیادت کی انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈر ہیں، پاکستان میں آمد اور اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتوں کو اہم سمجھا جارہا ہے۔
دفاعی اور سیکورٹی سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کا یہ دورہ بہت اہم ہے۔
ممتاز دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیر عمران ملک نے وائس آ ف امریکہ کی اردو سروس کے قمر عباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے اسٹریٹیجک تعلقات سوائے اس ایک وقت کے، ہمیشہ ہموار رہے ہیں، جب یمن میں سعودی حملے پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ اور اب پاکستان کی نئی حکومت بڑی کوششوں کے بعد تعلقات کو نہ صرف بہتری کی پرانی سطح پر لے آئی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ بہتر تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ اور اس کے لئے جو سب سے بہتر خارجہ پالیسی ٹول استعمال کیا ہے وہ ملڑی ڈپلومیسی کا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کلیدی رول راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے اقتصادی شعبے میں پاکستان کو بھاری ریلیف دیا ہے۔ سعودی ولی عہد پاکستان آ رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے اس موقع پر 15 سے 20 ارب ڈالر کے نئے منصوبوں کا اعلان ہو گا۔ امکان یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے ہو جائیں گے۔
آئی ایم سی ٹی سی میں پاکستان کی شمولیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے سے اس اتحاد میں موجود ہے۔ لیکن اس اتحاد کے پاس نہ تو کسی تیسرے ملک میں جا کر کاروائی کرنے کی صلاحیت ہے نہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسے یہ اختیار حاصل ہے۔یمن میں سعودی عرب جو کچھ بھی کر رہا ہے، پاکستان اس کا حصہ نہیں ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانی فوج کے دستے صرف تربیت دینے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے پاکستان کو جتنی اقتصادی امداد مل رہی ہے اس کے عوض اگر پاکستان کو وہاں فوج بھی بھیجنی پڑے تو انہیں حیرانی نہیں ہو گی، کیونکہ اس وقت سعودی ولی عہد خشوگی کے واقعے کے سبب نہ صرف بین الاقوامی دباؤ میں ہیں بلکہ اندرون ملک کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے بھی مشکلات میں ہیں اور ایسی صورت میں اندرونی صورت حال کو مستحکم کرنے اور شاہی خاندان کے تحفظ کے لیے اگر پاکستان کی فوج وہاں بھیجی بھی جائے تو یہ دونوں ملکوں کے لئے جیت کی صورت حال ہو گی۔ لیکن پاکستان کی فوج وہاں رہتے ہوئے بھی سعودی عرب کی سرحدوں سے آگے کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ سعودی عرب سے پاکستان کی قربت کے سبب ایران کے ساتھ اس کے تعلقات کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ Zero Sum گیم نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہے۔ یا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ وہ ایران یا کسی دوسرے ملک کے خلاف سعودی عرب کی طرف سے فوجی کارروائی کرے گا۔ جبکہ بقول ان کے ایران اور بھارت کے درمیان سن 2003 کا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہےتو بھارت پاکستان کے خلاف ایرانی اڈوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح چاہ بہار بھی گوادر کو متاثر کر سکتا ہے۔ وہاں بھارت کی موجودگی ہے۔ وہ فوجی اڈہ بھی بن سکتا ہے۔ اسی طرح اومان سے بھی بھارت بقول ان کے ایک نیول بیس لے رہا ہے۔ تو ان تمام چیزوں کو پاکستان اور سعودی عرب کے پس منظر میں نہیں بلکہ بطور مجموعی خطے کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہو گا اور پاکستان اپنے قومی مفادات میں سعودی عرب کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر خالد رحمان نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے راحیل شریف کے سعودی ولی عہد کے دورے سے قبل کے دورے کو اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے راحیل شریف وہاں گئے ہیں، پاکستان کے لئے موقع ہے کہ اگر اسے سعودیوں سے کسی مجموعی پیکیج پر بات کرنی ہو تو اس کے لئے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مفہوم یقینی طور پر نہیں ہے کہ یہ تعلقات کسی اور کے خلاف استعمال ہوں گے۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 70 برسوں میں سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھے ہیں اور نشیب و فراز کے باوجود انہیں نبھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برخلاف پاکستان دونوں ملکوں کو قریب لانے اور مجموعی طور پر مسلم ملکوں کے مفادات کے لئے مل کر کام کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے کردار ادا کرسکتا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5