نیویارک میں بم دھماکے میں ملزم قرار دیئے گئے افغان نژاد امریکی شہری احمد خان راحمی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان کا بھی سفر کر چکے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی سامنے آئیں جن میں یہ کہا گیا کہ پاکستان کے سفر کے بعد راحمی انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئے۔
پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بغیر تحقیقات کے یہ الزام عائد کیا جانا کہ پاکستان کا سفر کرنے کی وجہ سے احمد خان راحمی انتہا پسندی کی جانب راغب ہوا یہ درست نہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ اچھے اور برے عناصر تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن اُن کے بقول دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کا پاکستان سے تعلق تلاش کرنا درست نہیں۔
’’پاکستان میں جو بستے ہیں وہ 99 فیصد سارے نارمل بندے ہیں۔۔۔ ایک فیصد آدھا فیصد ہر سوسائٹی میں ہوتے ہیں انتہا پسند۔۔۔ تو اب اس میں پاکستان کی کہاں سے ذمہ داری آ گئی اگر وہ بچہ انتہا پسند بن گیا امریکہ میں رہ کر اور اگر وہ افغانستان آیا۔۔۔ جو کچھ بھی ہوا تو پاکستان پر اس کی ذمہ داری ڈالنا میرے خیال میں درست نہیں۔‘‘
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس وقت اس مسئلے سے نجات کے لیے بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی برداری کو پاکستان پر اعتماد کرنا چاہیئے۔
’’یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ پاکستان گیا تھا تو وہاں سے وہ کچھ لے کر آیا ہے ... پاکستان تو خود جان چھڑاتا ہے ان لوگوں سے سو یہ کہہ دینا کہ پاکستان سے جو چکر لگا کر آ گیا ہے وہ انتہا پسند ہو گیا ہے میں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔...تو اس لیے ہمارے اوپر بھروسہ کرے یورپ، امریکہ اور باقی دنیا بھی۔۔۔ کہ ہم بھرپور طریقے سے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے میں شامل ہیں۔‘‘
اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق راحمی نے 2011 میں پاکستان کا سفر کیا تھا، جہاں اُنھوں نے تین مہینے قیام کیا تھا جب کہ آخری مرتبہ وہ مارچ 2014 میں پاکستان کے شہر کوئٹہ گئے اور وہاں شادی کی۔
احمد راحمی جنوری 1988 میں افغانستان میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں ہی اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔