فیصل آباد پولیس نے مبینہ طور پر خواتین کو تشدد اور انہیں بے لباس کرنے کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور انہیں بے لباس کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنائی۔ البتہ سوشل میڈیا پر واقعے سے متعلق زیرِ گردش ویڈیوز نے بھی معاملے پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش کچھ ویڈیوز میں خواتین پر تشدد کے ساتھ ساتھ دو خواتین کو خود سے کپڑے اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے متاثرہ خواتین کی مدعیت میں چار معلوم اور 10 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار کچرا چننے کا کام کرتی ہیں اور وہ اپنی دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ کچرا چننے کے لیے مقامی مارکیٹ گئی تھیں۔
ایک متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ جب انہیں پیاس لگی تو وہ ملزمان میں سے ایک کی دکان میں گئیں اور وہاں پانی کی بوتل مانگی۔ لیکن دکان کے مالک نے چلانا شروع کر دیا اور الزام لگایا کہ وہ چوری کے ارادے سے آئی ہیں۔
پولیس کو درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شور شرابہ ہونے پر وہاں مزید افراد جمع ہوئے اور انہوں نے درخواست گزار خواتین پر تشدد شروع کر دیا اور انہیں پکڑ کر مارکیٹ میں گھسیٹا۔
البتہ مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ایس پی نعیم عزیز کا کہنا ہے کہ دکان داروں نے پولیس کو بتایا ہے کہ خواتین نے دکان سے کچھ چیزیں چرائی تھیں اور جب انہیں پکڑا گیا تو انہوں نے اپنے کپڑے خود پھاڑنا شروع کر دیے۔
ایس پی کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ خواتین اپنے کپڑے خود پھاڑ رہی ہیں۔ جب کہ ان کے مزید کپڑے تب پھٹے جب انہیں دکان سے باہر گھسیٹا گیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر بحث جاری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ فیصل آباد میں خواتین کو برہنہ کیا گیا۔ مارا گیا البتہ کسی نے مدد نہیں کی۔
ان کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے کیا جرائم کیے تھے۔
یحییٰ نامی صارف نے ٹوئٹ کیا فیصل آباد کے واقعے نے خواتین سے زیادہ مردوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وکٹم کارڈ کھیلنا بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔
فاطمہ بتول نامی صارف نے لکھا کہ جب مرد جرم کرتا ہے تو ہجوم اس پر تشدد کرکے مار دیتا ہے لیکن جب یہی عورت کے ساتھ ہو تو پہلے اسے بے لباس کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کا واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے ایک پدرانہ معاشرہ خواتین کو سبق سکھاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویے پر نظرثانی کریں۔
ٹوئٹر پر شیری نامی ایک صارف نے لکھا کہ فیصل آباد واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز دیکھیں۔ ایک خاتون نے اپنے کپڑوں کو پھاڑ دیا تھا، وہاں کھڑے لوگوں کو اس پر چادر ڈالنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ مینارِ پاکستان سے لے کر اس واقعے تک سمجھ نہیں آرہا کہ اس سال کیا ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر خواتین پر تشدد یا انہیں اس طرح بے لباس کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ٹک ٹاکر کے ساتھ مبینہ طور پر دست درازی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں درجنوں افراد کی جانب سے ایک خاتون سے بدسلوکی کی گئی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس پر سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
مذکورہ واقعے میں پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔