غزہ میں آٹھ اکتوبرکو بڑی جنگ چھڑنےسے پہلے ایک اسٹور کے مالک محمود الداؤدی نے کبھی بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ان کے اسٹور میں ایک عرصے سے دھول سے اٹے قصہ پارینہ بن جانے والے ریڈیو سیٹ کی مانگ اتنی بڑھ جائے گی اور وہ بیرونی دنیا سے رابطے کا تقریبأ واحد ذریعہ بن جائیں گے۔
غزہ میں ایک عرصے سے بجلی منقطع ہونا روز مرہ زندگی میں معمول کا ایک حصہ رہا ہے ۔ لیکن محصو رعلاقے کے 24 لاکھ لوگ اسرائیل کی جانب سے بجلی اور ایندھن پر بندش کے بعد طویل ترین دورانیے کے بلیک آؤٹ برداشت کر رہے ہیں۔
ان حالات میں ان کےلیے کمپیوٹرز اور ٹی وی چلانا، ٹیلی فونز کو ری چارج کرنا یا انٹر نیٹ تک رسائی جنریٹرز یا سولر پینلز کے بغیر ناممکن ہو گئی ہے ۔ غزہ کے چند شہری ہی ان سہولیات کی استطاعت رکھتے ہیں۔
لیکن خبریں سننے کے لیے بیٹری سے چلنے والے ریڈیو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔
غز ہ کے جنوبی سرے، رفح میں واقع اپنے اسٹور سے بات کرتے ہوئے اسکے مالک محمود داؤدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ،" ہمارے پاس ریڈیوز کا ایک پورا اسٹاک موجود تھا لیکن جنگ کے پہلے ہفتےکے بعد ہی ہمارا اسٹاک بالکل ختم ہو گیا۔"
داؤدی نے کہا ،" اب فون اور انٹر نیٹ کے بغیر ریڈیو ہی حالات حاضرہ کو جاننے کاواحد ذریعہ ہے ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی بیٹری زیادہ دیر تک چلتی ہے ۔"
جنگ سے پہلے ایک ریڈیو لگ بھگ 25 شیکلز ،( سات ڈالر) کا ہوتا تھا ۔۔ اور اب اس کی قیمت لگ بھگ 60 شیکلز (16 ڈالر) تک ہو چکی ہے۔
33 سالہ داؤدی نے کہا کہ ،" ہم نے تو وہ ٹوٹے پھوٹے ریڈیو بھی دوبارہ بیچ دیے جو لوگوں نے ہمیں واپس کیے تھے۔"
جب دکانوں سے ریڈیو سیٹ ختم ہو گئے تو گاہکوں نے ایسےپرانے ٹیلی فونز کے لیے کہا جن میں ریڈیو اور ٹارچ ہوتی تھیں ۔ یہ رات کو مدد دیتی ہیں۔ داؤدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ، اب ہمارے پاس فون کم پڑ رہے ہیں۔
دور ماضی میں واپسی
ریڈیو کے نئےاسٹاک کا آرڈر دینا ناممکن ہے کیوں کہ علاقے میں صرف محدود سطح کی انسانی ہمدردی کی امداد آسکتی ہے۔
ایک اور اسٹور کے مالک حسین ابو ہاشم نے،جن کے پاس ریڈیو کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے کہا ، "لوگ خبریں سننا چاہتے ہیں، وہ یہ سنناچاہتے ہیں کہ گولہ باری کہاں ہو رہی ہے اور وہ اپنے خاندانوں کی خیر و عافیت کا پتہ چلانا چاہتے ہیں۔"
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کے شروع ہونےسے اب تک 19 لاکھ فلسطینی، یعنی لگ بھگ 85 فیصد آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکی ہے ۔ ان میں سے بہت سے اب علاقے کے جنوب میں عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی اشیائے ضرورت کافقدان ہے۔
جنوبی شہر خان یونس میں ایک فلسطینی خاتون ام ابراہیم نےاے ایف پی کو بتایا کہ ، "مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے، حملے کہاں کہاں ہو رہے ہیں، کن گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے ، کون زندہ ہے کون شہید ہو گئے ہیں ۔"
انہوں نے کہا ، "ہم غزہ میں ہر جگہ کی خبریں سننا چاہتے ہیں۔"
جب میرے ریڈیو کی بیٹری ختم ہو جاتی ہے تو میں پورے کیمپ میں پیدل گھومتی ہوں اور دوسرے لوگوں کے ریڈیو پر خبریں سنتی ہوں۔
بی بی سی عربی اور الجزیرہ نے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین خبریں فراہم کرنے میں مدد کےلیے خصوصی چینلز شروع کر دیے ہیں۔
غزہ کے کچھ شہری ، مثلاً عبرانی زبان بولنے والے 75 سالہ محمد حسونا اسرائیلی ریڈیو اسٹیشنوں سے خبریں سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے انہیں اسرائیل کی جانب سے تازہ ترین خبریں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ" میں اپنے بچوں اور پڑوسیوں کو باخبر رکھتا ہوں ۔"
ان کے خیمےکے باہر 37 سالہ صالح زو روب ا پنے موبائیل فون پر دستیاب ریڈیو اسٹیشنز کے پروگرام سن کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ دنیا جدید ٹکنالوجی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور غزہ میں ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔
وہ" ہمیں پتھر کے دور میں واپس لے جار ہے ہیں۔"
اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے