صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ کے مضافاتی علاقے سر یاب میں جمعہ کی سہ پہر نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے پو لیس کے تین اہلکاروں کو ہلا ک کر دیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز حامد شکیل نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ مقتول پو لیس اہلکار 14 اگست کے حوالے سے سر یاب کے علاقے چکی شاہوانی روڈ پر اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے کہ مسلح افراد نے خودکارہتھیاروں سے اُن پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور تینوں موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
بلوچستان میں اس سے پہلے بھی پو لیس کی گشتی ٹیموں اور اہلکاروں پر ایسے حملے کیے گئے ہیں اور پاکستانی حکام تشدد کی ان کارروائیوں کی ذمہ داری علیحدگی پسند بلوچ عسکری تنظیموں پر عائد کرتے ہیں۔
گزشتہ سال کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک خود کش بم حملے کے نتیجے میں پولیس کے تین ڈی ایس پی افسران سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے تھے اس کے علاوہ پو لیس کے متعدد افسران کو گزشتہ دو سالوں کے دوران ریمو ٹ کنٹرول بم دھماکو ں کے ذریعے نشانہ بنانے کی کو شش کی گئی ہے۔
بلوچستان پو لیس کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سالوں کے دوران ایسے حملوں میں 158 پو لیس اہلکار ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر واقعات کی ذمہ داری خود بلو چ عسکری تنظیموں نے قبول بھی کی ہے۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت بلو چستان میں حا لات خراب کر نے کے لیے افغانستان میں قائم اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بلو چستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی مالی مدد کر رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکام ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
دریں اثناء بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل ملک محمد اقبال نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ بلوچ رہنماء حبیب جالب کے قاتلوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس میں اُن کے قریبی رشتہ دار ملوث ہیں جنہوں نے دوران تفتیش اس قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور کہا ہے کہ اُنھوں نے یہ اقدام ذاتی عناد کی بنیاد پر کیا ہے۔