پاکستان میں اہلِ تشیع پر حملوں میں اضافے کا خدشہ، ایچ آر ڈبلیو

کوئٹہ کی ایک امام بارگاہ میں رکھی میتوں کے پاس لواحقین افسردہ بیٹھے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ گزشتہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 400 سے زائد افراد مارے گئے اور ’’گزشتہ روز کے واقعات کو اگر ایک اشارہ سمجھا جائے تو یہ حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی علمبردار ایک بڑی تنظیم نے کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے تناظر میں متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں شیعہ برادری پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ گروپ کے پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن نے جمعہ کے روز کہا کہ گزشتہ سال شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 400 سے زائد افراد مارے گئے اور ’’گزشتہ روز کے واقعات کو اگر ایک اشارہ سمجھا جائے تو یہ حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔‘‘

جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جمعرات کی شام ایک بلیئرڈ ہال میں پہلے خودکش دھماکا ہوا اور جونہی پولیس اور امدادی کارکن وہاں پہنچے تو اسی اثناء میں دوسرا بم دھماکا ہوا۔

اس واقعے میں پولیس اہلکاروں، امدادی کارکنوں، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت 96 افراد ہلاک اور 120 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے تھے۔ قبل ازیں جمعرات کی دوپہر کوئٹہ کے مصروف بازار میں باچا خان چوک پر ہونے والے بم دھماکے میں ایک درجن کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

کوئٹہ میں علمدار روڈ شیعہ ہزارہ برادری کا ایک مصروف علاقہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق کالعدم سنی انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

حکومت نے دہشت گردی نے ان تازہ واقعات کے بعد کہا ہے کہ اس کے تمام ادارے دہشت گردانہ اور انتہاپسندانہ سوچ کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔

حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں شیعہ برادری پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن میں خاص طور پر بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری اور کوئٹہ سے ایران جانے والے زائرین کی بسوں پر مہلک حملے بھی شامل ہیں۔