بلوچستان میں ایک بار پھر امن و امان کی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔ مئی کے آغاز سے اب تک دہشت گردی کے چار واقعات میں کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پیر کی رات کوئٹہ کے نیم کاروباری اور رہائشی علاقے سٹیلائٹ ٹاﺅن میں ایک دھماکے میں چار پولیس اہل کار ہلاک اور 9 افراد زخمی ہو گئے۔
ڈی آئی جی کو ئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ دہشت گرد حملہ سٹیلائٹ ٹاﺅن کی ایک مسجد میں نماز تروایح کی ادائیگی کے موقع پر اس وقت ہوا جب پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کے اہل کار نمازیوں کے تحفظ کے لیے وہاں پہنچے۔
پولیس اہل کاروں کے پہنچتے ہی ریموٹ کنڑول سے ایک مو ٹرسائیکل پر نصب بارودی مواد کا زور دار دھماکہ کر دیا گیا۔
دھماکے سے پانچ پو لیس اہل کاروں سمیت 13 افراد زخمی ہو گئے، جن میں سے چار اہل کاروں نے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ دیا۔
ایک پولیس اہل کار اور 8 شہریوں کو فوری طبی امدار اور علاج کے لیے سول اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
زخمیوں میں سے دو کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔
ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف پولیس فورس، آر آر جی کے اہل کار تھے۔
دھماکے کے بعد، پولیس، فرنٹیر کور اور دیگر متعلقہ اداروں کے اہل کار موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے کر وہاں سے شواہد اکٹھے کیے۔
تاحال کسی گروپ یا تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبو ل کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
مئی شروع ہونے کے بعد سے بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر خودکش حملہ، ضلع ہرنائی میں ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بنانے اور دو روز پہلے گوادر میں ایک ہو ٹل پر حملے کے واقعات شامل ہیں جن میں کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیکورٹی فورسز نے گوادر ہوٹل پر حملہ کر نے والے تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ ماہ مکران ڈویژن کے کوسٹل ہائی وے پر مسلح افراد نے مسافر کوچز سے 16 مسافروں کو اُتارنے کے بعد ان میں سے 14 کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا جن میں سے بیشتر پاکستان نیوی کے اہل کار تھے۔
دہشت گردی کے ان دونوں واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکری تنظیمیوں نے قبول کی تھی۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاءلانگو کا کہنا ہے کہ حالیہ حملے پاکستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدوں پر باڑ لگانے کے ردعمل میں کیے جا رہے ہیں۔ باڑ کی تکمیل کے بعد یہ حملے بند ہو جائیں گے۔