جزیرے سے میتھین گیس کا اخراج جاری ہے جو جلد آگ پکڑ لیتی ہے۔ گیس کے سبب وہاں مسلسل بلبلے بن رہے ہیں
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیونوگرافی کے ماہرین نے کہا ہے کہ گوادر کے ساحل پر نمودار ہونے والا جزیرہ قدرتی معمول ہے، عوام اس سے خوف زدہ نہ ہوں۔ تاہم، جزیزے پر جانے کی کوشش نہ کی جائے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جزیرے سے میتھین گیس کا اخراج جاری ہے، جو جلد آگ پکڑ لیتی ہے۔ لہذا، وہاں جانا خطرناک ہوسکتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیونوگرافی کے ماہرین کی ایک ٹیم بدھ کو جزیرے پر پہنچ گئی جس نے جزیرے کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ ریسرچ شروع کردی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جزیرہ نمودار ہونے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 1999ء اور 2010ء میں بھی ایسے ہی جزیرے نمودار ہوچکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزیرہ دوبارہ زیر آب چلا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق جزیرے سے میتھین نامی گیس کی موجودگی کے سبب وہاں مسلسل بلبلے بن رہے ہیں۔ جبکہ، جزیرے پر آبی حیات کے آثار بھی موجود ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ جزیرہ سمندر کی سطح کے نیچے تھا جو منگل کے زلزلے کے بعد ابھر کر نمودار ہوا۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیونوگرافی سے وابستہ ایک ماہر سائنس دان اور جیولوجسٹ، محمد دانش کا کہنا ہے کہ نومبر2010ء میں بھی بلوچستان کے ساحلی علاقے ہنگول کی پٹی پر گوادر سے پشگان کے درمیان کئی کلو میٹر طویل ایک جزیرہ نمو دار ہوا تھا۔ یہ جزیرہ کئی فٹ اونچی اور کئی کلو میٹر وسیع چٹانوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مارچ 1999ء میں اورماڑہ کے نزدیک بھی ایک ایسا ہی جزیرہ نمودار ہوچکا ہے۔
محمد دانش کے مطابق یہ جزیرے ہمیشہ قائم نہیں رہتے اور اب تک کے مشاہدے کے مطابق جیسے ہی مون سون کا موسم شروع ہوتا ہے یہ جزیرے زیرآب چلے جاتے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جزیرے میں عام لوگوں کی دلچسپی کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ روز سے اب تک لوگوں کی ایک بڑی تعداد جزیرے کا نظارہ کرچکی ہے۔ جبکہ، یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ جیولوجسٹ محمد دانش کا کہنا ہے کہ عام لوگ ہرگز جزیرے کا رخ نہ کریں۔ ایک تو میتھین گیس کا اخراج ابھی بند نہیں ہوا، دوسرے جزیرہ سمندر میں بیٹھ بھی سکتا ہے۔
جزیرہ ابھرنے کی وجوہات سے متعلق بتاتے ہوئے محمد دانش کا کہنا ہے کہ سطح سمندر سے100میٹر نیچے میتھین گیس موجود ہے۔ زلزلہ آنے سے جیسے ہی کہیں بھی زمین کی سطح کمزور پڑتی ہے، اس طرح کے جزیزے نمودار ہوجاتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جزیرے سے میتھین گیس کا اخراج جاری ہے، جو جلد آگ پکڑ لیتی ہے۔ لہذا، وہاں جانا خطرناک ہوسکتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیونوگرافی کے ماہرین کی ایک ٹیم بدھ کو جزیرے پر پہنچ گئی جس نے جزیرے کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ ریسرچ شروع کردی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جزیرہ نمودار ہونے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 1999ء اور 2010ء میں بھی ایسے ہی جزیرے نمودار ہوچکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزیرہ دوبارہ زیر آب چلا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق جزیرے سے میتھین نامی گیس کی موجودگی کے سبب وہاں مسلسل بلبلے بن رہے ہیں۔ جبکہ، جزیرے پر آبی حیات کے آثار بھی موجود ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ جزیرہ سمندر کی سطح کے نیچے تھا جو منگل کے زلزلے کے بعد ابھر کر نمودار ہوا۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیونوگرافی سے وابستہ ایک ماہر سائنس دان اور جیولوجسٹ، محمد دانش کا کہنا ہے کہ نومبر2010ء میں بھی بلوچستان کے ساحلی علاقے ہنگول کی پٹی پر گوادر سے پشگان کے درمیان کئی کلو میٹر طویل ایک جزیرہ نمو دار ہوا تھا۔ یہ جزیرہ کئی فٹ اونچی اور کئی کلو میٹر وسیع چٹانوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مارچ 1999ء میں اورماڑہ کے نزدیک بھی ایک ایسا ہی جزیرہ نمودار ہوچکا ہے۔
محمد دانش کے مطابق یہ جزیرے ہمیشہ قائم نہیں رہتے اور اب تک کے مشاہدے کے مطابق جیسے ہی مون سون کا موسم شروع ہوتا ہے یہ جزیرے زیرآب چلے جاتے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جزیرے میں عام لوگوں کی دلچسپی کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ روز سے اب تک لوگوں کی ایک بڑی تعداد جزیرے کا نظارہ کرچکی ہے۔ جبکہ، یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ جیولوجسٹ محمد دانش کا کہنا ہے کہ عام لوگ ہرگز جزیرے کا رخ نہ کریں۔ ایک تو میتھین گیس کا اخراج ابھی بند نہیں ہوا، دوسرے جزیرہ سمندر میں بیٹھ بھی سکتا ہے۔
جزیرہ ابھرنے کی وجوہات سے متعلق بتاتے ہوئے محمد دانش کا کہنا ہے کہ سطح سمندر سے100میٹر نیچے میتھین گیس موجود ہے۔ زلزلہ آنے سے جیسے ہی کہیں بھی زمین کی سطح کمزور پڑتی ہے، اس طرح کے جزیزے نمودار ہوجاتے ہیں۔