روسی صدر کا امریکی میزائل تجربے کا جواب دینے کا عندیہ

روسی صدر ولادی میر پوٹن (فائل فوٹو)

روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے وزارتِ دفاع اور دیگر سرکاری اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ امریکہ کے کروز میزائل کے حالیہ تجربے کا مشاہدہ کریں اور روس کی طرف سے اس کا مساوی جواب دینے کی تیاری کریں۔

صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ خطّے میں نئے میزائل نصب کرنے کی بات کر رہا ہے، ایسی صورتِ حال میں روس آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔

روسی صدر نے مزید کہا کہ ’روس کبھی بھی مہنگے اور تباہ کن اسلحے کی دوڑ کا حصّہ نہیں بننا چاہے گا۔ میں وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور روس کی دیگر ایجنسیوں کو حکم دے رہا ہوں کہ وہ امریکہ کے اقدامات سے روس کو درپیش ممکنہ خطرات کا مشاہدہ کرتے ہوئے امریکہ کو اس کا مساوی جواب دینے کی تیاری کریں‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہم عالمی امن اور باہمی تعلقات بحال کرنے کے لیے امریکہ سے مذاکرات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

اس سے قبل روس کے صدر پوٹن نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ، رومانیہ اور پولینڈ میں نئے کروز میزائل نصب کر سکتا ہے جو صدر پوٹن کے بقول ماسکو کے لیے خطرہ ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' نے پیر کو کہا تھا کہ امریکہ نے 500 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

امریکی محکمۂ دفاع کے اس اعلان کے بعد روس اور چین نے اس معاملے پر بحث کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔

دونوں ممالک نے اقوامِ متحدہ کے تخفیفِ اسلحہ معاملات کے سربراہ ازومی ناکامیٹسو سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکہ کے کروز میزائل کے حالیہ تجربے سے متعلق سلامتی کونسل کو بریفنگ دیں۔

واضح رہے کہ امریکہ کی جانب کروز میزائل کا حالیہ تجربہ امریکہ کے انٹرمیڈیٹ رینج نیو کلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدے سے علیحدگی کے بعد پہلا تجربہ ہے۔

آئی این ایف معاہدے کے تحت دونوں ممالک زمین سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ختم کرنے کے پابند تھے۔

دونوں ملکوں کے درمیان جوہری اسلحے کی تخفیف کا یہ معاہدہ رواں ماہ ختم ہوا ہے جب امریکہ نے اس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس کی جانب سے جان بوجھ کر آئی این ایف معاہدے کی خلاف ورزی کیے جانے کے بعد امریکہ اس معاہدے کا پابند نہیں رہنا چاہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ روس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے میزائل تیار کر رہا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے واضح خطرہ ہیں۔