پوٹن کا شام کے مشن میں کامیابی کا دعویٰ، دوبارہ انتخاب کی تیاری

فائل

پوٹن کا پھر سے انتخاب یقینی ہے۔ عام جائزہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے، جنھوں نے تقریباً دو عشروں سے روسی سیاست پر راج کیا ہے۔ تاہم، بتایا جاتا ہے کہ خود وہ اور اُن کے مشیروں کو ووٹروں کی عدم دلچسپی کا سامنا ہے

ولادیمیر پوٹن نے گذشتہ ہفتے اس بات کی تصدیق کی کہ آئندہ مارچ میں منعقد ہونے والے روسی صدارتی انتخابات میں وہ پانچویں بار عہدے کے امیدوار ہوں گے۔ اِس ہفتے، اُنھوں نے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، اپنے ملک میں نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے بیرونِ ملک دور ے کے دوران۔

مصر، ترکی اور شام میں قیام کے دوران، جہاں اُنھوں نے پیر کے روز اعلان کیا کہ روس کی فوج نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے سے روکنے کا ہدف حاصل ہو چکا ہے، پوٹن فخریہ انداز سے اپنی قومی کامیابی کو بیان کرتے اور داد وصول کرتے رہے کہ اپنی قیادت میں اُنھوں نے سویت دور کے روس کو حاصل قابلِ ذکر طاقت والا کردار بحال کرا دیا ہے۔

پوٹن کا پھر سے انتخاب یقینی ہے۔ عام جائزہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے، جنھوں نے تقریباً دو عشروں سے روسی سیاست پر راج کیا ہے۔ تاہم، بتایا جاتا ہے کہ خود وہ اور اُن کے مشیروں کو ووٹروں کی عدم دلچسپی کا سامنا ہے، اور مارچ میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد پولنگ بوتھ میں موجود ہو اور وہ واضح اکثریت سے جیتیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو بادشاہ گر ظاہر کرنے والے اور طرابلس کے ساحل سے خلیج ِفارس تک اپنے نئے دوست پیدا کرنے کے اُن کے دعوے داخلی طور پر اُنھیں اچھی شہرت دیتے ہیں۔

روسی تحویل میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ نے اُن کے حالیہ طوفانی دورے کو خاص اہمیت دی، سلامی دیتے ہوئے لڑاکا جیٹ طیاروں کے جھرمٹ میں اُن کے طیارے کی روانگی کو بار بار دکھایا گیا؛ اور جب روسی فوجی اڈے پر اسد اُن کا شکریہ ادا کر رہے تھے، ساتھ ہی قاہرہ میں اُن کی مصروفیات، جہاں اُنھوں نے مصر کے بحیرہؤ روم کے ساحل پر جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کے سمجھوتے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی۔

دورہٴ انقرہ کے دوران بھی اُن کا یہی انداز تھا، جہاں اُنھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ اپنی آٹھویں ملاقات کی اور ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کیا، جس دوران، اردوان نے پوٹن کو ’’میری محبوب دوست‘‘ کہہ کر پکارا۔

شام میں، پوٹن نے اسد کی امداد کے بارے میں ’’مشن کامیاب ہوا‘‘ کا دعویٰ کیا؛ جس کے بعد اُنھیں یہ موقع میسر آیا کہ شام سے روسی افواج کے جزوی انخلا کا اعلان کریں۔

شام میں ’حیمیم‘ کے روسی فضائی اڈے پر روسی فوجوں کو سراہتے ہوئے، پوٹن نے اُن کی فتح کا ذکر کیا۔ روسی زبان میں اپنے ایک نشریہ بیان میں اُنھوں نے کہا کہ ’’آپ نے روسی فوجی کی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا؛ جس کا طرہ امتیاز بہادری، حوصلہ، ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جذبہ، فیصلے کی قوت اور بہترین مہارت کی علامت ہے۔ مادرِ وطن آپ پر فخر کرتا ہے‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے روس کی جانب سے اندھا دھند فضائی حملوں میں شہری آبادی کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا؛ یا پھر یہ کہ اُن کی مداخلت کے نتیجے میں ایک مطلق العنان حکومت، جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؛ اپسے بچانا کہاں تک قابل تحسین معاملہ ہے؛ یا پھر یہ کہ اسد کے خلاف نبردآزما مسلح غیر جہادی اپوزیشن کے خلاف کھل کر لڑنا، جس سے اسد کے مخالفین شدید کمزور ہوئے۔

ستمبر، 2015ء سے، جب پوٹن نے شام میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا، مشرق وسطیٰ میں روس کی تعریف بڑھی؛ جس سے قبل کی مغربی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی کہ شام کے تنازعے میں روس کا ملوث ہونا روس کے لیے ایک المیہ ثابت ہوگا۔

سابق امریکی صدر براک اوباما کے وزیر دفاع، ایش کارٹر نے پیش گوئی کی تھی کہ پوٹن کا مشن ’’شکست سے دوچار ہوگا‘‘؛ یہ دلیل دیتے ہوئے کہ روس ویتنام کی طرح کی دلدل میں پھنس جائے گا۔

ایسا نہیں ہوا۔ کم از کم ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔