روسی صدر کا اوباما کا فون، یوکرین کی صورتِ حال پر گفتگو

'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق جمعرات کی شب ہونے والی گفتگو دونوں رہنماؤں کے درمیان فروری کے بعد پہلا براہِ راست ٹیلی فونک رابطہ تھا۔

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کو ٹیلی فون کرکے مشرقی یوکرین میں جاری کشیدگی، مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال اور دیگر معاملات پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق جمعرات کی شب ہونے والی گفتگو دونوں رہنماؤں کے درمیان فروری کے بعد پہلا براہِ راست ٹیلی فونک رابطہ تھا۔

'کریملن' کے مطابق صدر پیوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ شام میں داعش کی پیش قدمی اور اسے روکنے کی حکمتِ عملی پر تبادلۂ خیال کیا۔

بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امریکی اور روسی وزرائے خارجہ جان کیری اور سرگئی لاوروف مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے والی بنیاد پرستی کی لہر کو روکنے کے طریقہ کار پر اتفاق اور تعاون کے لیے باہم رابطے بڑھائیں گے۔

'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہونےو الے بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی صدر کے ساتھ گفتگو میں صدر اوباما نے یوکرین میں جاری بحران اور اس میں مبینہ روسی مداخلت کا معاملہ اٹھایا اور صدر پیوٹن پر زور دیا کہ وہ "یوکرین سے اپنے تمام فوجی دستے اور ہتھیار" واپس بلائیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے روس پر زور دیا کہ وہ مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کے اس معاہدے کا احترام اور اس کی شرائط کی پاسداری کرے جس پر فریقین نے بیلاروس کے دارالحکومت منِسک میں اتفاق کیا تھا۔

'کریملن' کے بیان میں کہا گیاہے کہ صدر پیوٹن نے مِنسک معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنے نائب وزیرِ خارجہ گریگوری کیراسین اور ان کی امریکی ہم منصب وکٹوریہ نولینڈ کے درمیان مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔

'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ایران کے ساتھ جاری چھ عالمی طاقتوں کے جوہری مذاکرات پر بھی گفتگو کی اور اتفاق کیا کہ ایران کی جوہری صلاحیت پر قدغن عائد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات میں شریک تمام چھ بڑے ممالک اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔