پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ قانون منظور کرلیا۔ بل کے مطابق صوبہ بھر میں ویلیج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسلوں کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر جب کہ تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہو گا۔
نیا بلدیاتی نظام دو مسودات قانون کے ذریعے نافذ ہو گا۔ پنجاب اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کے متن کے مطابق سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنے پینل دیں گی۔ بل کے تحت تحصیل اور ویلیج کونسل کا نظام قائم ہو گا۔
ایوان میں لوکل باڈیز ترمیمی بل برائے 2019 وزیر قانون و بلدیات پنجاب راجہ بشارت نے پیش کیا۔ بل کے متن کے مطابق لوکل گورنمنٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہو گی۔ جس میں تحصیل کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن شامل ہوں گی۔
پنجاب کے 9 اضلاع کو میٹرو پولیٹن کا درجہ دیا جائے گا۔ میٹرو پولیٹن اسمبلی کی تعداد زیادہ سے زیادہ تعداد 55 اور ویلیج کونسل کے ارکان کی تعداد کم سے کم 8 ہو گی۔
نئے بلدیاتی انتخابات میں نوجوان، ٹیکنوکریٹ کی نشستیں اور تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی ہے، جب کہ اسمبلی کی مدت بھی پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دی گئی ہے۔ اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا۔
بل کے متن کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی عمر کم سے کم 25 سال مقرر کی گئی ہے۔
نئے نظام میں گوجرانوالہ،فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ڈی جی خان، بہاول پور، ساہیوال اور لاہور کے دو ڈسٹرکٹس میں میٹرو پولیٹن کارپوریشنیں قائم کی جائیں گی۔
ایوان میں بل پاس کیے جانے کے بعد وزیراعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت عوام کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک اختیارات پہنچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اُن کی حکومت نے الیکشن سے قبل کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کر دیا ہے۔
“بل نافذ العمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک سال کے اندر کروائے جائیں گے۔ پہلے اور آخری سال میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی۔ بلدیاتی اداروں میں کوئی بھی ترقیاتی کام کروانے کے لیے قرارداد لانی ضروری ہو گی”۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2019 کی منظوری کے دوران اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی تجاویز کو بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ لٰہذا وہ اِس بل کو مسترد کرتی ہے۔
بل پیش کرتے وقت اپوزیشن کے ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اِس موقع پر قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں کارروائی کو ایک طرف رکھ کر اِس بل کو پاس کرایا گیا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ اُن کی جماعت اِس بل کے خلاف عدالت میں قانونی جنگ لڑے گی۔
“صوبے کے 36 اضلاع میں نچلی سطح پر 60 ہزار نمائندے ہیں، جو عوام کی حقیقی خدمت کر رہے تھے۔ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں لوکل باڈیز کے جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ موجودہ حکومت نے لوکل باڈیز کے فنڈز نو ماہ منجمند کیے رکھے اور اَب منتخب نمائندوں کا قتل کر کے ایڈمنسٹریٹرز سے فنڈز کی بندر بانٹ کر رہے ہیں”۔
بل کی منظوری کے بعد ضلع اور یونین کونسل کا نظام ختم ہو جائے گا۔ شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل جب کہ دیہات میں تحصیل اور ویلیج کونسل ہو گی۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ بل آج ہی گورنر پنجاب کو منظوری کے لیے بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر کی منظوری اور گزٹ نوٹیفیکشن ہوتے ہی بلدیاتی ادارے تحلیل ہو جائیں گے۔
نئے بلدیاتی اداروں کا ایک سال کے اندر انتخاب کروایا جائے گا۔ جب کہ نئے انتخاب تک بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوں گے۔ نئے نظام کے تحت ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں بلدیاتی اداروں کو صوبہ پنجاب کے بجٹ کا 33 فیصد بجٹ دیا جائے گا۔
نئے بلدیاتی بل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔ جس میں درخواست گزار کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے تحت قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کو مدت مکمل کیے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کرائے گئے تھے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت منتخب نمائندوں کی پانچ سالہ مدت مکمل کیے بغیر انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مزید دلائل دینے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت دو مئی تک ملتوی کر دی ہے۔