جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وکلاء تنظیم کی قرارداد

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ فائل فوٹو

پاکستان سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے خلاف پنجاب کی وکلاء تنظیم پنجاب بار کونسل نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر قرارداد منظور کی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد میں ان پر قانون کے اُصولوں کو نظر انداز کرنے اور افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کی تضحیک کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خفیہ ایجنسیوں پر سنگین الزامات لگا کر انہیں سرکش قرار دینے کی کوشش کی ہے جس سے دشمن ایجنسی را اور بھارت کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔

پنجاب بار کونسل نے حال ہی میں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو ہٹائے جانے کے اقدام کی بھی حمایت کی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ نے، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، رواں سال فروری میں فیض آباد دھرنا کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

فیصلے میں افواج پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں۔

فیض آباد میں کیا ہوا تھا؟

فیض آباد راولپنڈی سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخلے کا مرکزی راستہ ہے جہاں 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے دوران مذہبی تنظیم لبیک یارسول اللہ نے ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں مبینہ تبدیلی کے خلاف دھرنا دیا تھا۔

کئی روز جاری رہنے والا دھرنا اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور ایک تحریری معاہدے کے بعد ختم ہوا تھا جس میں اس وقت کے ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی موجود تھے جنہیں حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں ترقی دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے اس سارے معاملے کا ازخود نوٹس لے رکھا تھا جس کا تفصیلی فیصلہ رواں سال جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا تھا؟

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم شامل تھے۔ اُنہوں نے 43 صفحات پر مشتمل حکم میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کو غیر ذمہ درانہ قرار دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاستی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کا کام بیرونی خطرات سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا ہے نہ کہ وہ ملکی سیاست اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگانے کے عمل میں شریک ہوں۔

نظر ثانی کی درخواستیں

پنجاب بار کونسل کی قرارداد سے قبل متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف سمیت پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ انٹیلی جنس بیورو سمیت 7 فریقین نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں۔