پنجاب میں یوریا کھاد نایاب ہوگئی

پنجاب میں یوریا کھاد نایاب ہوگئی

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں یوریا کھاد نایاب ہو گئی ہے جسکی وجہ سے زراعت سے وابستہ 55 لاکھ خاندانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثرکاشتکاروں کے خیال میں گندم کی بوائی ان کے لئے گھاٹے کاسودا بن چکا ہےکیونکہ فصل کی تیاری پر اٹھنے والےاخراجات حکومتی مقررکردہ گندم کی سپورٹ پرائس یعنی امدادی قیمت کے مقابلہ میں تین گنا سے بھی زائد ہو چکے ہیں۔ جبکہ یوریا کھاد کی نایابی نے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ کاشتکاروں کے مطابق انکے پاس متبادل فصلیں کاشت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے-

پنجاب میں یوریا کھاد نایاب ہوگئی

زرعی ماہرین کے مطابق وفاقی کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی نے 29اکتوبر سن 2010 میں گندم کی امدادی قیمت برائے سال 2010-2011 کے لیئے 950 روپے فی چالیس کلوگرام مقرر کی تھی- اسی طرح یوریا کے نرخوں میں اضافہ سے کھاد مارکیٹ سے ہی غائب ہو گئی ہے-

ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک کاشتکارملک عشرت عباس کے مطابق فی ایکڑ اخراجات جس میں کھاد۔بجلی۔پانی و دیگر شامل ہیں 1140 روپے سے بھی بعض اوقات تجاوز کر جاتے ہیں جس کے مقابلے میں حکومتی امدادی قیمت صرف 940 فی من ہے۔

کاشتکاروں کے مطابق وفاقی حکومت نے چارسال قبل گندم کی سپورٹ پرائس 950 روپے فی من مقرر کی تھی اور مستقل مزاجی سے اس پر قائم ہے جبکہ آٹے کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ چار سال قبل یوریا کھاد کی بوری 700/650کی تھی جبکہ آج یوریا کی بوری 1300 سے زائد پر دستیاب ہے۔ اسی طرح ڈی۔اے۔پی کی 900 روپے والی بوری اب 3300 روپے کی ہوچکی ہے۔ ڈیزل 37 روپے لیڑ تھا جو کہ اب 78 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جو بجلی کا یونٹ 3.34 روپے تھا آج 5.50 تک ہو چکا ہے گندم کی بوائی کے لیے پچاس کلوگرام بیج کا تھیلا 950 روپے کا تھا آج 2200 روپے تک پہنچ گیا ہے

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایگریکلچرل فورم پاکستان کے چیرمین ابراہیم مغل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کو تجویز دی تھی کہ گندم کے نرخ 1200 فی من کر دیئے جائیں مگر اس پر کوئی سنجیدگی سے غور ہی نہ کیا گیا۔ ڈیزل۔کھاد کی قیمتیں تو عالمی میعار کے مطابق مقرر کردی جاتی ہیں مگر گندم کے نرخ عالمی میعار کے مطابق نہیں ہوتے۔ حکومت نے چھ کروڑبوری یوریا امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جسکی وجہ سے کھاد ڈیلرز یوریا پر من مانے نرخ پر یوریا کھاد بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکنے والے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ یوریا کھاد کے استعمال سے فی ایکڑ پیداوار میں 5-10فیصد اضافہ ہوتا ہے- انکے مطابق گندم کی کاشت کے لئے فی ایکڑ ایک سے دو بیگ ڈی-اے-پی کھاد کے بیگ-3/4 یوریا کے بیگ اور آدھا بیگ پوٹاشیم سلفیٹ استعمال کیا جاتا ہے لیکن کاشتکاروں کے مطابق مڈل مین،کھاد ڈیلرز اور کھاد فیکڑی مالکان کا اتحاد کسانوں کا بھرپور معاشی استحصال کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ آج تک مڈل مین کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہی نہیں کی جاسکی۔

دوسری طرف ابراہیم مغل کہتے ہیں کہ حکومت کو کم ازکم چھ کڑور یوریا کھاد کی بوریاں درآمد کرناچاہیے تھیں مگراس بارے کچھ نہیں کیا گیا جس سے مارکیٹ میں یوریا بلیک میں فروخت ہو رہی ہے-تین ہفتے قبل یوریا کھاد کی فی بوری قیمت 853 روپے تھی مگر جیسے ہی حکومت نے قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوے نرخ 1040 پر مقرر کیے اب یوریا مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں اگر کہیں مل بھی جاے تو نرخ 1300 روپے سے زائد ہوتے ہیں-

اس سلسلے میں پنجاب کے صوبائی وزیر زراعت ملک احمد علی اولکھ سے بار،بار رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا فون وصول نہیں کیا- صوبائی محکمہ زراعت کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جب کھاد کی فراہمی ہوگی کاشتکاروں کو فراہم کر دی جائے گی کیونکہ پنجاب حکومت وفاق کی جانب سے فراہم کردہ اسٹاک کی صرف ڈسٹریبوشن کی ذمہ دار ہے-اس عہدیدار کے مطابق پنجاب کے صوبائی محکمہ زراعت نے حکومتی ٹارگٹ 16.89 ملین ایکڑ میں سے 95 فیصدی سے زائد پر کاشت مکمل کر لی ہے۔ افسر اعلی کے مطابق یوریا کھاد کے بحران پر جلد ہی قابوپالیا جائے گا-