بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین فوٹو جرنلسٹس کو صحافت کے سب سے بڑے ایوارڈ 'پلٹزر پرائز' سے نوازے جانے کا معاملہ بھارت میں ایک نئے سیاسی تنازع کی وجہ بن گیا ہے۔
'پلٹزر پرائز' کی انتظامیہ نے پیر کو 15 صحافتی اداروں اور صحافیوں سمیت کتب، ڈرامہ اور میوزک کیٹیگریز کے لیے بھی ایوارڈ جیتنے والوں کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ پلٹزر پرائز کی انتظامیہ نے امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ' پریس سے وابستہ کشمیری صحافیوں چھنی آنند، مختار خان اور ڈار یاسین کو ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا۔
ان صحافیوں نے گزشتہ سال بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدامات کے بعد کی صورتِ حال کی کوریج کی تھی۔
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں کو انعام ملنے پر حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ کر کے انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ بھارت کو ان پر فخر ہے۔
بھارتی کشمیر کے سابق وزرائے اعلٰی عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی سمیت کئی مقتدر صحافیوں، سماجی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے بھی انعام ملنے پر مذکورہ صحافیوں کو مبارک باد دی۔
البتہ، بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے صحافیوں کی پذیرائی کرنے کے اقدام کو ملک سے بے وفائی قرار دیا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے کشمیر کو بھارت سے الگ خطے کے طور پر پیش کیا۔ لہذٰا ان صحافیوں کی تعریف کرنا ملک سے بے وفائی کے مترادف ہے۔
بی جے پی کے ترجمان نے راہول گاندھی سے سوال کیا کہ کیا وہ اس مفروضے سے اتفاق کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر بھارت سے الگ خطہ ہے جس کی 'آزادی' کو نئی دہلی نے سلب کر دیا ہے۔؟
بھارت میں کئی ہم خیال افراد اور 'ہندوتوا' نظریے سے وابستہ لوگوں نے بھی پلٹرز پرائز انتطامیہ کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان افراد نے الزام لگایا کہ ان صحافیوں کو اُن تصاویر پر ایوارڈز دیے گئے، جو جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتی ہیں۔
ایک بھارتی صحافی آرتی تکو سنگھ نے جو ایک کشمیری پنڈت ہیں پلٹرز پرائز انتطامیہ کی غیر جانب داری پر سوال اٹھایا۔
اُنہوں نے کہا کہ ایسی تصویروں کو کبھی اس ایوارڈ کے لیے کیوں نہیں چُنا گیا جو کشمیر میں دہشت گردی کے شکار افراد اور ان کے بچوں کی حالتِ زار کی عکاسی کرتی ہوں بلکہ ایسی تصویروں کو کھینچا ہی نہیں گیا۔
بھارت کے کئی نیوز چینلز پر بھی یہ معابلہ زیرِ بحث ہے۔ متعدد ٹاک شوز میں بھی ان فوٹو جرنلسٹس کی جانب سے لی گئی تصاویر ہی موضوع بحث ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تصاویر نے بھارت مخالف پروپیگنڈے کو ہوا دی۔ البتہ بعض نیوز چینلز اور اخبارات نے اس خبر کو نمایاں کوریج بھی دی۔
بھارتی کشمیر میں جشن
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین صحافیوں کو ایوارڈ ملنے پر کشمیر میں جشن کا سماں ہے۔
مذکورہ فوٹو جرنلسٹس کو نہ صرف صحافتی حلقوں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد مبارک باد دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی تینوں صحافیوں کے چرچے ہیں۔ صارفین مشکل حالات میں ایسی تصاویر کھینچنے پر ان کی ہمت کو داد دے رہے ہیں۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب پولیس مختلف حیلوں بہانوں سے صحافیوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ ان تینوں صحافیوں کو ایوارڈ ملنے سے دیگر صحافیوں کو حوصلہ ملا ہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل بھارتی کشمیر کی پولیس نے ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ اور دیگر دو صحافیوں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔
بھارتی روزنامے 'دی انڈین ایکسپریس' کے ڈپٹی ایڈیٹر مزّمل جلیل نے کہا کہ ہمارے صحافیوں کے کام کو ایسے وقت میں سراہا گیا ہے، جب کشمیری صحافی شدید ریاستی دباؤ کا شکار ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ دیگر صحافیوں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ اچھا کام کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
بھارتی کشمیر کی پولیس صحافیوں کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ پولیس کا موقف ہے کہ دو صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ملک دشمن پوسٹس لگانے اور ایک صحافی پر حقائق کے برعکس رپورٹنگ پر قانون کے مطابق کارروائی کی گئی۔
پلٹرز ایوارڈ کے لیے انتخاب سیاسی تنازع بننے پر مذکورہ صحافی ذرائع ابلاغ سے کوئی گفتگو نہیں کر رہے۔
اس سے پہلے ڈار یاسین، مختار خان اور چھنی آنند نے ٹویٹ کر کے ایوارڈ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُنہیں اس ایوارڈ کے لیے چنا جائے گا۔
پُلٹزر پرائز صحافت کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے جو مختلف کیٹیگریز میں بہترین کارکردگی دکھانے والے صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کی ابتدا 1917 میں ہوئی تھی جو ایک امریکی اخبار کے پبلشر اور صحافی جوزف پُلٹزر سے منسوب ہے۔
ایوارڈ کا انتظام امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کرتی ہے۔ لیکن پُلٹزر پرائز جیتنے والوں کا تعین کرنے کے لیے باقاعدہ کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں جو مختلف صحافیوں کے کام کا جائزہ لینے کے بعد جیتنے والے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ہر کیٹیگری کے لیے الگ کمیٹی بنائی جاتی ہے۔
رواں سال کے 'پُلٹزر پرائز' کو کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ جب 1917 میں پہلا پُلٹزر پرائز دیا گیا تھا تو اس کے چند ماہ بعد ہی 'اسپینش فلو' کی وبا پھیلی تھی جس میں دنیا بھر میں لگ بھگ پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔