جب تک نا انصافی ہوگی، لہجہ یہی رہے گا: پشتین

فائل

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ ’’جب تک پشتونوں کے ساتھ نا انصافی اور غلط کارروائی ہوتی رہے گی، ہم اسی طریقہٴ کار پر کاربند رہیں گے‘‘۔

اُنھوں نے یہ بات جمعے کے روز وائس آف امریکہ کی ’ڈیوا سروس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کو قبائلی ضلعے اورکزئی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پشتون تحفظ تحریک کے مطالبات درست لیکن اس کا لہجہ مسائل کھڑے کر رہا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے لب و لہجے اور فوج پر بے جا تنقید سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

وی او اے نے جب منظور پشتین سے وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا لہجہ یہی ہے، اور یہی طریقہٴ کار رہے گا جب تک کہ زیادتی اور بے انصافی ختم نہیں ہوتی۔‘‘

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم نے پی ٹی ایم کے معاملے پر لب کشائی کی ہے جسے ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بارہا ریاست مخالف قرار دے چکی ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم ریاست مخالف بیانیے اور پروپیگنڈے کو ہوا دے رہی ہے اور اس کے خلاف ریاست اپنی طاقت استعمال کرسکتی ہے۔

منظور پشتین کا کہنا تھا کہ’’ کون سا لہجہ صحیح ہے اور کون سا درست نہیں ہے؟ ہم نے کافی عرصے سے بیان بازی دیکھی ہے۔ لیکن ہمارے مسائل کو کسی نے حل نہیں کیا‘‘۔

بقول ان کے، ’’ہماری سرزمین پر نہ ہمارے گھر محفوظ ہیں نہ ہماری عزتیں نہ ہی ہمارے بزرگ۔ اس بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ طریقہٴ کار غلط ہے؟‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’ہماری سرزمین پر بمباری ہوئی۔ کسی نے اسے غلط قرار نہیں دیا۔ لوگ دس دس سال سے لاپتا ہیں۔ یہ غلط بات ہے کہ لوگ لاپتا ہیں۔ لیکن اسے کسی نے غلط نہیں کہا‘‘۔

پشتین نے کہا کہ ’’ڈیڑھ سال قبل جب پی ٹی ایم بنا کوئی بھی ہمارے مسائل نہیں سنتا تھا‘‘۔ بقول اُن کے، ’’چوکیوں پر لوگوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا جاتا تھا۔ لیکن ہماری کوششوں سے دھماکے اور ظلم و زیادتی میں کمی ضرور آئی ہے‘‘۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ’’ماضی کی پالیسیاں اور غلطیاں اب بھی جاری ہیں‘‘۔

پی ٹی ایم کے رہنما نے کہا کہ ’’اگر ہم سچ بولتے ہیں تو پاکستان ناراض ہوتا ہے اور اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو خدا ناراض ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے الزام لگایا کہ مہمند ضلعے میں اب بھی بھتہ وصول ہوتا ہے اور لوگ ہلاک کیے جاتے ہیں۔