’سوشل میڈیا‘ کارکنوں کی گرفتاری پر تحریک انصاف کا احتجاج

پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے مبینہ طور پر فوج کے خلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کی گرفتاری پر سراپا احتجاج ہے۔

تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اب تک حراست میں لیے گئے لگ بھگ 20 افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔

تحریک انصاف کے کارکنوں نے پیر کو اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے علاوہ کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بند کیا جائے۔

اس احتجاج سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ عوام کی زبان بند نہیں کی جا سکتی۔

’’کبھی بھی آپ کیا کسی کا منہ بند کر سکتے ہیں۔۔۔۔ عوام کسی بھی ادارے پر تنقید کر سکتی ہے۔۔۔ آپ خود فیصلہ کر لیے کہ کس نے نقصان پہنچایا ہے پاکستانی فوج کو۔۔۔ اگر آپ سکیورٹی کے نام پر لوگوں کے منہ بند کریں گے تو یہ تو آپ جمہوریت کا منہ بند کر رہے ہیں۔۔۔ وہ عام لوگ ہیں، عام لوگوں کی آواز تو بند نہیں کر سکتے۔‘‘

اُدھر اطلاعات کے مطابق پشاور میں تحریک انصاف کے ’سوشل میڈیا‘ ونگ سے وابستہ ایک رضا کار کے دفتر پر پیر کو سادھا کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مارا۔

تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے وابستہ فرقان کاکا خیل کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اپنا نجی دفتر قائم کر رکھا تھا جسے وہ اپنی پارٹی کے نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اُن کی پارٹی کے سوشل میڈیا ونگ سے وابستہ کئی افراد کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے سائبر کرائم ونگ نے گرفتار کیا ہے۔

صحافی طحٰہ صدیقی

دریں اثنا ایک صحافی طحٰہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی تحقیقات ادارے ’ایف آئی اے‘ کے خلاف ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔

طحٰہ صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک اپنے پیغام میں تحریر کیا کہ اُنھیں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے پر انسداد دہشت گردی کے محکمے کی طرف سے ہراساں جا رہا ہے۔

انھی افراد میں سے ایک صحافی طٰحہ صدیقی ہیں جنھوں نے پیر کے روز اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔

واضح رہے کہ طحٰہ کو پاکستان میں پولیو وائرس کے اثرات سے متعلق ایک ڈاکومنٹری بنانے پر 2014 میں پریغ ایلبرٹ لودز ایوارڈ دیا گیا تھا۔

طحٰہ صدیقی ایک فرانسیسی ٹی وی چینل فرانس 24 سے وابستہ ہیں جب کہ وہ ویئون چینل کے بیوروچیف بھی ہیں۔

وہ امریکہ اخبار نیویارک ٹائمز کے علاوہ ڈیلی ٹیلی گرام اور دیگر اداروں کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔

مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے خلاف ’سوشل میڈیا‘ پر آواز بلند کرنے والے کارکنوں کی گرفتاری اور صحافی طحٰہ صدیقی کو ہراساں کرنے کے بارے میں حکومت کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ تقریباً ایک ہفتہ قبل پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’ایف آئی اے‘ کے سائبر کرائم ونگ کو حکم دیا تھا کہ’’آزادی اظہار کی آڑ میں فوج یا اس کے افسران کی تضحیک ناقابلِ قبول ہے۔‘‘ اس لیے اس میں ملوث اشخاص کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔

یاد رہے کہ موقر انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں مبینہ طور پر قومی سلامتی کے منافی شائع ہونے والی خبر یعنی ’ڈان لیکس‘ کی تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں وزیراعظم کے دفتر سے جاری نوٹیفیکیشن کو فوری طور پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے رد کرنے اور بعد ازاں معاملات طے پانے پر آئی ایس پی آر کی طرف سے ’ٹویٹ‘ واپس لینے پر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر فوج سے متعلق مختلف حلقوں کی طرف سے رائے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستانی حکومت کی طرف سے سماجی میڈیا پر اظہار رائے کی بے جا پابندیوں اور خوف و ہراس کی فضا پر انسانی حقوق کے غیر سرکار ی ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آرسی پی' اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ایچ آر سی پی نے گزشتہ ہفتے پارلیمان میں جمع کروائے گئے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک، ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تقریباً 900 افراد کے خلاف مقدمات درج کرچکا ہے۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا موقف ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے لیکن اس کی آڑ میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔