اسلام آباد میں احتجاج کی کال؛ کیا عمران خان کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے؟

  • پاکستان تحریکِ انصاف کو اس بار احتجاج کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے، تجزیہ کار
  • اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہو گی کہ احتجاج کے دوران کسی قسم کا کوئی تشدد نہ ہو جس کے بدلے پی ٹی آئی کے بھی کچھ مطالبات ہوں گے، سہیل وڑائچ
  • یہ بات اہم ہے کہ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر کس کا پیغام لے کر عمران خان کے پاس گئے تھے، چوہدری غلام حسین
  • یہ اہم بات ہے کہ آیا ممکنہ مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان جیل سے باہر آتے ہیں یا نہیں، سہیل وڑائچ
  • پی ٹی آئی کا احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے بالکل بھی مختلف نہیں ہو گا، مجیب الرحمٰن شامی
  • بشرٰی بی بی سیاست میں نا تجربہ کار ہیں۔ جس طرح کے وہ احکامات دے رہی ہیں، اُس پر دیکھنا ہو گا کہ وہ کس طرح ممکن ہو گا، شامی

لاہور _ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے اور اِس احتجاج کے پیشِ نظر حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی متحرک نظر آتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے احتجاج کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں جب کہ حکومت نے ماضی کی طرح مظاہرین کو روکنے کے لیے دارالحکومت میں کئی مقامات پر رکاوٹیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ البتہ ملک کے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ فریقین کے درمیان شاید پسِ پردہ مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ تاہم دونوں اطراف سے اِس بارے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی جا رہی۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے مطابق 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج ماضی کے تمام احتجاجوں سے مختلف ہو گا کیوں کہ یہ احتجاج دھرنے میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے چار مطالبات میں سرِ فہرست عمران خان کی رہائی ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ فروری کے انتخابات کے میںڈیٹ کی واپسی اور چھبیسویں آئینی ترمیم کا خاتمہ بھی مطالبات میں شامل ہے۔

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو مقتدر حلقوں سے ہونے والی ممکنہ بات چیت کے لیے نامزد کیا ہے۔

پی ٹی آئی اس سے قبل بھی لاہور اور اسلام آباد میں احتجاج کر چکی ہے لیکن مرکزی قیادت کے بغیر ہونے والے ان مظاہروں کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس بار احتجاج کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے کیوں کہ معاملات بگڑنے کی صورت میں اُن کے لیے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات سے متعلق مقامی ذرائع ابلاغ میں جو خبریں گردش کر رہی ہیں وہ صرف احتجاج پر بات چیت سے متعلق ہی ہیں۔ ان کے بقول اس سے زیادہ دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہو گی کہ احتجاج کے دوران کسی قسم کا کوئی تشدد نہ ہو اور اسلام آباد میں کوئی دھرنا نہ ہو۔ جس کے بدلے پی ٹی آئی کے بھی کچھ مطالبات ہوں گے اور اب دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا مانگتی ہے۔

دوسری جانب سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کی خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہیں۔

SEE ALSO: توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی ضمانت منظور؛ کیا رہائی ممکن ہو سکے گی؟

ان کے بقول پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہ تو کوئی بات چیت ہو رہی ہے اور نہ ہو گی۔ اگر کوئی مذاکرات ہوئے بھی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت جاری ہے جس میں ریاستی ادارے اور اُن کے تمام ذیلی ادارے شامل ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں جیل میں عمران خان سے ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر کس کا پیغام لے کر عمران خان کے پاس گئے تھے۔

کیا عمران خان کو فائدہ ہو گا؟

سہیل وڑائچ کی رائے میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی ممکنہ بات چیت میں عمران خان اپنے لیے کوئی ریلیف ضرور مانگیں گے۔ لیکن اہم یہ ہے کہ اُنہیں وہ ریلیف کتنا اور کس حد تک ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اہم بات ہے کہ آیا ممکنہ مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان جیل سے باہر آتے ہیں یا نہیں۔

چوہدری غلام حسین کی رائے میں 24 نومبر کے احتجاج سے قبل ہی ریاستی اداروں اور عمران خان کے درمیان کوئی تحریری یا زبانی معاہدہ ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ احتجاج سے قبل ہی عمران خان کو کوئی بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔

لیکن مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں چوبیس نومبر کے احتجاج کے بعد عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ماضی میں ہونے والے مظاہروں کے بعد بھی اُن کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان قدرے تحمل سے ایک مدبر سیاست دان کی طرح اپنی لڑائی لڑتے تو آج اُن کی طاقت مختلف ہوتی اور حکومت بھی اُن سے پریشان ہوتی۔ اُن کی رائے میں عمران خان کو ایک ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اُن کی مشکلات کم ہو۔

SEE ALSO: عمران خان تک رسائی کی حکومتی یقین دہانی کے بعد پی ٹی آئی کا احتجاج موخر

یاد رہے عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بات صرف اُن سے کریں گے جن کے پاس اصل طاقت ہے۔ اس سے قبل عمران خان مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کے لیے ایوان میں پی ٹی آئی کے اتحادی محمود خان اچکزئی کو بھی نامزد کر چکے ہیں لیکن دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہو سکی تھی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان ماضی میں بات چیت کے نتیجے میں احتجاج ملتوی کر چکے ہیں لیکن اس سے ان کی خواہش تو پوری نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کیک کا پیس لے لیا تھا۔

اُن کے خیال میں عمران خان اِس لیے اسٹیبلشمنٹ پر تبقید کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا۔ اگر سلوک اچھا ہو تو وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کریں گے۔

کیا یہ احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے مخلف ہو گا؟

تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں چوبیس نومبر کو پی ٹی آئی کا احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے بالکل بھی مختلف نہیں ہو گا بلکہ اِس احتجاج کے بعد پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اُن کے بقول یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس رہی ہے۔

تجزیہ کار چوہدی غلام حسین کی رائے میں پی ٹی آئی کا احتجاج جذبے اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے 'ڈو اور ڈائی' والی صورتِ حال ہو گا۔

اُن کے خیال میں ریاست اپنی طاقت کے ذریعے پی ٹی آئی کارکنوں کو پکڑ رہی ہے تا کہ وہ احتجاج میں شرکت نہ کر سکیں جب کہ حکومت اپنے مفادات کے لیے ریاستی اداروں کو پی ٹی آئی کارکنوں کے سامنے کھڑا کرتی ہے۔

کیا بشریٰ بی بی بھی متحرک ہیں؟

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے اجلاسوں کی نہ صرف صدارت کر رہی ہیں بلکہ احتجاج کے بارے میں ہدایات بھی دے رہی ہیں۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی احتجاج کے بارے ہدایات ضرور دیتی ہوں گی لیکن احتجاج میں آنے والے لوگ رکاوٹوں کو بھی مدِنظر رکھیں گے۔

مجیب الرحمٰن شامی کے خیال میں سیاسی جماعتیں جب دباؤ میں آتی ہیں تو اُن کے مختلف دھڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں سیاسی جماعتیں سب کو متحد رکھنے کے لیے کسی ایسے فرد کو سامنے لاتی ہیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ بشرٰی بی بی بھی اِسی ضرورت کے تحت آگے آ رہی ہیں۔

اُن کے خیال میں بشرٰی بی بی سیاست میں نا تجربہ کار ہیں۔ جس طرح کے وہ احکامات دے رہی ہیں کہ ایک حلقے سے 20،20 ہزار افراد نکلیں، اُس پر دیکھنا ہو گا کہ وہ کس طرح ممکن ہو گا اور اُس کے لیے اسلام آباد میں کیا انتظامات کیے جاتے ہیں اور اُن کے اخراجات کون اُٹھائے گا۔