پاکستان میں حزب مخالف کے ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مسلمان ملکوں کے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے معاملے پر بحث کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک انصاف نے اس مقصد کے لیے بدھ کو پارلیمان میں ایک قرار داد جمع کروائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر اس فوجی اتحاد میں شامل ہونا باعث تشویش ہے۔
سعودی عرب نے انسداد دہشت گردی کے لیے گزشتہ سال تیس سے زائد ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا، تاہم ایران اور مشرق وسطیٰ کے شیعہ اکثریت والے ملک اس اتحاد میں شامل نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان نے قرار داد میں موقف اختیار کیا کہ حکومت نے اس فوجی اتحاد کے قواعد و ضوابط سے آگاہی حاصل کیے بغیر اس کا حصہ بننے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے گزشتہ ہفتہ معمول کے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اس اتحاد کے قواعد وضوابط ابھی واضح ہونا باقی ہیں لیکن ان کے بقول اسلام آباد کی یہ کوشش رہے گی یہ فوجی اتحاد مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنے۔
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کے اس اتحاد کی قیادت کرنے کے معاملے پر تہران کے تحفظات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
تاہم پاکستانی عہدیدار اس تاثر کو رد کر چکے ہیں یہ اتحاد کسی ملک یا مسلک کے خلاف ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کی شب پارلیمان میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "کسی مسلک کی بنیاد پر اس کا حصہ نہیں بن رہے ہیں اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو یقین دلاؤں کہ ہم قطعی طور پر نا کسی ملک کے خلاف جارحیت کا حصہ بنیں گے اور نا کسی مسلکی اتحاد کا حصہ بنیں گے۔"
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد اس صورت میں موثر ہو سکتا ہے اگر ایران سمیت تمام اسلامی ملک اس میں شامل ہوں۔
تجزیہ کار ماریہ سلطان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بات کا فیصلہ ایران کو کرنا ہے کہ کیا وہ کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننا چاہتا ہے یا نہیں۔
" پاکستان اپنی خواہش ظاہر کر سکتا ہے لیکن بہر حال ایران ایک آزاد ریاست ہے اس بات کا فیصلہ ایران کو ہی کرنا پڑے گا۔۔۔ وہ اس کو شیعہ سنی تناظر سے نکل کر بین الاقوامی دہشت گردی کے زمرے میں اگر دیکھیں گے تو یقینی طور پر یہ تمام اسلامی ملکوں کے لیے فائدہ مند ہو گا لیکن اگر اس کو اسی سعودی عرب اور ایران تناظر میں دیکھا گیا تو یہ نا خطے کے لیے بہتر ہو گا نا ہی بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جو جنگ چل رہی ہے یہ اس کے لیے بہتر ہو گا۔"
مشرقی وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے اور کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنا تمام اسلامی ملکوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔