مبینہ آڈیو لیکس کا معاملہ: پی ٹی آئی کا چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے سیاسی رہنماؤں کے فون ٹیپ کرنے کو آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں شیریں مزاری اور فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کی فون ٹیپنگ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور حکومتی معاملات پر وزیراعظم کی گفتگو لیک کرنا آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہو گی۔

خیال رہے کہ بعض ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ایک مبینہ آڈیو ٹیپ جاری ہونے والی ہے جس میں وہ اپنے وزارت عظمی کے وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ حکومت کو ہٹانے کے لیے مبینہ امریکی سازش سے متعلق گفتگو کررہے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر یہ آڈیو عام کی جاتی ہے تو یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی نفی ہوگی بلکہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہوگی جس پر ان کی جماعت خاموش نہیں رہے گی۔

تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ فون ٹیپنگ کے معاملے پر 1997 میں سپریم کورٹ نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کردیا تھا اور اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فون ٹیپنگ آئین کے آرٹیکل 8 اور 14 کے تحت غیر قانونی ہے۔

چند روز سے سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو گردش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سرکاری یا ذاتی گفتگو ریکارڈ نہیں کی جاسکتی۔ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پاکستان کے حکومتی رہنماؤں کی فون ٹیپنگ ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں غیر قانونی طور پر فون ٹیپنگ کرتی ہیں کیونکہ حساس اداروں کے پاس فون ٹیپ کرنے کی ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے تسلیم کیا ہے کہ وہ فون کالز کو ریکارڈ کرتے ہیں۔

پاکستان میں آڈیو اور ویڈیوز کے ذریعے کسی سیاسی شخصیت کے خلاف مہم چلانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں مریم نواز، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، عمران خان، صدر عارف علوی اور دیگر سیاسی قائدین کی آڈیو اور ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں۔

چند روز سے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی ایک آڈیو ٹیپ بھی گردش کررہی ہے جس میں وہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سربراہ ارسلان خالد کو سیاسی مخالفین کے خلاف حکمتِ عملی کی ہدایات دیتی سنائی دے رہی ہیں۔

بشری بی بی کی اس گردش کرنے والی مبینہ آڈیو ٹیپ پر گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس بارے میں صورتِ حال فرانزک ٹیسٹ کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مبینہ آڈیو ٹیپ کی بنیاد پر سابق خاتون اول پر الزامات کا لگائے جانا مناسب نہیں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

جعلی ویڈیو یا آڈیوز بنتی کیسے ہیں؟


خیال رہے کہ ایک مبینہ آڈیو ٹیپ میں بشریٰ بی بی تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا کے انچارج ارسلان خالد سے گفتگو کرتے ہوئے مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کے ذریعے غداری کے الزامات اور سازش کا بیانیہ بنانے کی ہدایات دے رہی ہیں۔

وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے اس پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے تسلیم کر لیا کے گردش کرنے والی آڈیو ٹیپ بشریٰ بی بی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہوگیا کہ سیاسی مخالفین پر غداری کے الزامات لگانا اور اداروں کے خلاف مہم بشریٰ بی بی چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنما نے اپنی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے بیرونی سازش اور غداری کا بیانیہ گھڑا جو کہ اب بے نقاب ہوچکا ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ عرصے میں عدلیہ، سیاست دانوں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہمات چلائی جاتی رہی ہیں۔ حکومتی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مہم تحریکِ انصاف کی جانب سے چلائی جارہی ہے تاہم پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں سیاستدانوں کے ٹیلی فون ٹیپ ہونا اور ان کی گفتگو کا جاری ہونا انوکھی بات نہیں۔ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی ایک دوسرے اور ریاستی اداروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کئی مواقع پر ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریکارڈنگ سامنے لاتی رہی ہیں جو کہ بڑے سیاسی اسکینڈلز بن کر آج بھی سیاسی حوالوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو متعدد مواقوں پر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ٹیلی فون ٹیپ کرنے جیسی جاسوسی کی شکایت کرتی رہی ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک مرتبہ ٹی وی مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’میں جو بھی کرتا ہوں، جو میں ٹیلی فون کرتا ہوں جو بھی مجھے رابطہ کرتا ہے خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی اور آئی بی کو پتا ہوتا ہے۔‘