سیاہ فام شخص کی پولیس حراست میں ہلاکت پر امریکہ میں پرتشدد مظاہرے

مظاہروں کے دوران لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔

امریکہ کی ریاست منی سوٹا سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پولیس کی زیرِ حراست سیاہ فام شخص کی ہلاکت پر مسلسل دوسرے روز پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباؤ ڈال رکھا تھا۔ جو بعد میں دم توڑ گیا تھا۔

مذکورہ شخص کی بعدازاں شناخت 46 سالہ جارج فلوئیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ یہ واقعہ میناپولس شہر میں پیش آیا۔

پولیس کا الزام تھا کہ مذکورہ شخص کو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے قریب سے جعلی بل منظور کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

واقعے کے بعد ریاست منی سوٹا کے مختلف شہروں میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔

میناپولس کے مختلف علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔

مشتعل مظاہرین نے بھی پولیس کی گاڑیوں پر رنگ پھینکا جب کہ پولیس اسٹیشنز پر پتھراؤ کی بھی اطلاعات ہیں۔

واقعے کے بعد چار پولیس اہلکاروں کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

میناپولس کے میئر جیکب فرے نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی ہے کہ جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے پولیس اہلکار کے خلاف مجرمانہ غفلت کے تحت کارروائی کی جائے۔

امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واقعے کو المیہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ محکمۂ انصاف اور ایف بی آئی اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت پر لاس اینجلس میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ سیکڑوں مظاہرین نے فلائیڈ سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالی اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔

مظاہرین اس وقت مشتعل ہو گئے جب اُنہوں نے ایک مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا اور کیلی فورنیا پولیس کی دو گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے۔

مقامی پولیس یونین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گرفتار پولیس اہلکار تفتیش کاروں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ لہذٰا قبل از وقت کسی نتیجے پر پہنچنا مناسب نہیں ہے۔

یونین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں ساری ویڈیوز کا مکمل جائزہ لینا چاہیے، اس کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے قبل بھی 2014 میں نیو یارک میں ایک سیاہ فام شخص پولیس کی زیرِ حراست ہلاک ہو گیا تھا۔ ایرک گارنر نامی سیاہ فام شخص کو کھلے سگریٹس کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن پر گھٹنا رکھا تھا جس پر اُس نے 11 دفعہ کہا تھا کہ 'میں سانس نہیں لے سکتا' جس کے بعد یہ جملہ پولیس تشدد کے خلاف ایک نعرہ بن گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے پانچ سال بعد گزشتہ سال نیو یارک پولیس کے ایک اہلکار کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔