چودہ برس قبل چھ کشمیریوں کو نئی دہلی کے بھرے بازار میں ہونے والے بم دھماکے کا مجرم قرار دینے کے خلاف وادی کشمیر میں ہڑتال اور پُر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔
بم دھماکہ نئی دہلی کے ایک مصروف تجارتی علاقے لجپت نگر میں دو مئی 1996ء کو ہوا تھا، جِس میں 13افراد ہلاک اور 39زخمی ہوئے تھے۔
اِس سلسلے میں پولیس نے 10افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی تھی، لیکن نئی دہلی کی ایک عدالت نےثبوت کی عدم دستیابی پر اپنے فیصلے میں اُن میں سے چار کو الزامات سے بری کردیا۔
تاہم، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کشمیری علاحدگی پسند تنظیم ‘ماس موومنٹ’ کی قائدہ، فریدہ ڈار سمیت چھ افراد کو مجرم قرار دے دیا، جب کہ اُن کی سزا کا تعین کرنا باقی ہے۔
اُدھر سرکردہ علاحدگی پسند کشمیری رہنما، سید علی شاہ گیلانی نے عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک دِن کی عام ہڑتال کرنے کی اپیل جاری کردی، کیونکہ اُن کا استدلال ہے کہ بھارتی عدلیہ اس اور اِس جیسے درجنوں مقدمات میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
خود ملزموں کے وکیل خلیل انصاری نے عدالت کے سامنے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ اُن کے مؤکلوں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے اور یہ کہ وہ سب سے سب بے گناہ ہیں۔
عام ہڑتال کی وجہ سےوادی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں نے سری نگر کے پرانے شہر میں پانچ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں غیر معمولی حفاظتی پابندیاں عائد کردیں۔
بعض مقامات پر نوجوانوں کی ٹولیاں اور پولیس والوں کے درمیان جم کر لڑائی ہوئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت استعمال کی۔ نصف درجن افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اِس طرح کے واقعات شمال مغربی شہروں سوپور اور بارہ مولا میں بھی پیش آئے۔
دس پر فردِ جرم تھی، لیکن شواہد کی کمی سےچار بری ہو گئے تھے