پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے تجارتی مرکز مینگورہ سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب شدت آ رہی ہے اور شہریوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔
جمعے کو بھی سوات کی تحصیل چار باغ، بریکوٹ، کبل کے علاوہ ضلع بونیر اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں بھی مظاہرے ہوئے۔ نمازِجمعہ کے بعد بڑی تعداد میں لوگ بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا کر ان علاقوں کے تجارتی مراکز میں جمع ہوئے اور طالبان کے خلاف نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے تاکہ وہ امن کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں رہ سکیں۔
مظاہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اگر واقعی سوات میں کالعدم شدت پسند تنظیم پاکستان تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں کی واپسی ہوئی ہے تو کس معاہدے کے تحت انہیں واپس آنے دیا گیا ہے؟
مقامی افراد اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں 2007 سے 2009 کے دوران سوات میں ہونے والی دہشت گردی کی لہر دوبارہ تو نہیں سر اُٹھا لے گی?
خیال رہے کہ سن 2007 میں سوات، بونیر اور گردونواح میں ٹی ٹی پی کے منظم ہونے اور اپنی عدالتیں قائم کرنے کے بعد 2009 میں پاکستانی فوج نے آپریشن کیا تھا جس سے قبل پوری سوات وادی کو خالی کرا لیا گیا تھا۔
آپریشن کے بعد فوج نے علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس سال جولائی سے ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی واپسی اور مقامی قبائلی رہنماؤں کے قتل کے بعد علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر اور شدت پسندوں کی موجودگی کے باعث ضلع سوات کے بالائی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے چوکیاں بھی قائم کر لی ہیں جب کہ بعض علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں۔ لوگ یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ کیا فورسز کسی نئے آپریشن کی تیاری کر رہی ہیں؟
لبتہ سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی اعلامیہ یا معلومات جاری نہیں کی گئی ہے۔
چند ہفتے قبل ضلع سوات کے تجارتی مرکز مینگورہ سے 'سوات اولسی پاسون' نامی پلیٹ فارم سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوا جہاں سوات کی رہائشیوں کی بڑی تعداد میں شرکت یہی ظاہر کر رہی ہے کہ یہ لوگ حکومت خصوصاً عسکری قیادت سے ان سوالات کے جوابات چاہتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کبل، مٹہ اورخوازہ خیلہ میں احتجاجی مظاہروں کے بعد 11 اکتوبر کو مینگورہ کے نشاط چوک پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی جس میں ’دہشت گردی نامنظور، بھتہ خوری نامنظور اورہمیں امن چاہیے‘ جیسے نعرے لگائے گئے ۔
مظاہروں میں شدت پیر کو اسکول وین پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈرائیور کی ہلاکت اور دو طلبہ کے زخمی ہونے کے بعد آئی۔
مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر امن کی بحالی کو یقینی بنائے بصورت دیگر سوات کے عوام ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے پرمجبورہو جائیں گے۔
مظاہرے میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے مینگورہ سٹی کے مئیر شاہد علی خان، نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رہنما اورسابق سینیٹر افراسیاب خٹک اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
کیا واقعی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی علاقے میں واپسی ہوئی ہے؟
رواں سال جولائی ہی سے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے بالائی علاقوں میں ضلع دیر کی سرحد تک پھیلے ہوئے پہاڑوں میں مسلح طالبان شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات آ رہی تھیں جنہیں مقامی افراد نے بھی دیکھا۔
مٹہ بازار سے چند کلومیٹر فاصلے پر چپریال پولیس اسٹیشن پر سات اگست کی رات طالبان شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کرنے اور فرارہونے کی رپورٹس آئیں مگر پولیس افسران کا یہ کہنا تھا کہ چند مشکوک افراد کو دیکھ کر پولیس نے فائرنگ کی ہے۔
اگست میں ہی ایک جھڑپ کے دوران دو فوجی اور ایک پولیس افسر کو مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے یرغمال بنا لیا تھا۔
اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں جنگجو فوجی اہلکاروں سے سوال و جواب کر رہے ہیں جب کہ قریب ہی ایک ڈی ایس پی رینک کا پولیس افسر زخمی حالت میں موجود تھا۔ اسی دن سوات کے ایک مقامی صحافی کی طالبان شدت پسندوں سے ٹیلی فونک گفتگو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
بعدازاں روایتی جرگے کے نتیجے میں لگ بھگ 20 گھنٹوں بعد ان افراد کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
اس واقعے کے چند روز بعد عسکریت پسندوں نے مٹہ کے ایک نواحی گاؤں میں سابقہ امن لشکر کے سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنا کر دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعے کے دوسرے روز چارباغ قصبے سے ملحقہ علاقے دکوڑک میں سابقہ امن کمیٹی کے ایک رکن حاجی محمد شیریں کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
طالبان شدت پسندوں کے خلاف 2009 میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے ضلع بھر میں علاقوں کی سطح پرعلاقے کے بااثرافراد پرمشتمل ویلج ڈیفنس کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھی جسے امن لشکر بھی کہاجاتاہے۔ ٹی ٹی پی نے ادریس خان کے قتل کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ متعدد طالبان اراکین کے قتل میں ملوث تھے۔
ادریس خان کے قتل کے اگلے دن مٹہ کے علاقے چپریال سے بین الاقوامی موبائل کمپنی کے آٹھ ملازمین کو دن دیہاڑے اِغوا کیا گیا جس میں سے مزدوروں کو رہا کرکے مغوی انجینئرز کی رہائی کے لیے شدت پسندوں نے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا۔
ان واقعات سے نہ صرف ضلع بھر کے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوا بلکہ ملکی سطح پرایک ردِعمل سامنے آیا جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو بھی اگست کے وسط میں بیان جاری کرنا پڑا۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سوات اور دیر کے درمیان آبادی سے کچھ دور کچھ پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کو دیکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے ہیں۔
خیال رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے دوران حکومتِ پاکستان نے عندیہ دیا تھا کہ افغانستان میں روپوش جو جنگجو ہتھیار ڈال کر آئینِ پاکستان کو تسلیم کریں تو انہیں اپنے علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔
مقامی افراد کو یہ خدشہ ہے کہ یہ وہی جنگجو ہیں جو مبینہ طور پر کسی معاہدے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں واپس آئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے مزید کہا گیا کہ "پہاڑوں پر ان افراد کی محدود نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ملحقہ علاقوں کی آبادی کی سیکیورٹی کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ضرورت کے تحت عسکریت پسندوں سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔'
تحریکِ طالبان پاکستان نے بھی 13 اگست کو سوات اور دیگر علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی سے متعلق اپنا مؤقف جاری کیا۔
تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے کبھی بھی اپنے علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے وزیرستان سے لے کر سوات تک کسی نہ کسی شکل میں اپنا مسلح وجود برقرار رکھا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سوات بھر میں گزشتہ ماہ سے ٹی ٹی پی کی جانب سے کاروباری افراد اورسیاسی رہنماؤں کو بھتوں کے لیے فون کالز بھی کی جا رہی ہیں۔ کئی افراد اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے اب تک کروڑوں روپے بھتہ بھی دے چکے ہیں۔
سوات سے منتخب ایک رکن صوبائی اسمبلی نے مقامی پولیس کوبھتے کی دھمکی کے پیشِ نظر اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے درخواست بھی جمع کرائی ہے۔
'سو سے زائد طالبان شدت پسند واپس آئے'
سوات کے حالیہ دورے کے دوران تحصیل مٹہ کے رہائشی سیاسی رہنماؤں اور ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے رہنماؤں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جولائی سے ان کے دیہات سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح شدت پسند دیر کی سرحد کی جانب مختلف پہاڑیوں میں موجود ہیں۔
یہ سارے شدت پسند سوات کے مقامی ہیں جو 2009 میں پاکستانی فوج کی جانب سے سوات میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف ’آپریشن راہ راست‘ شروع ہونے کے بعد اپنے اہلِ خانہ سمیت افغانستان کے صوبے کنڑ منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ گزشتہ13سال سے رہائش پذیر تھے۔
پشاور میں تعینات قانون نافذ کرنے والے ایک سینئر اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوات سے مفرور طالبان شدت پسندوں کی تعداد 1700 سے زائد ہے جن میں اکثریت افغانستان کے صوبے کنڑ میں رہائش پذیر ہے۔
ان کے بقول ”سوات میں واپس آنے والے طالبان شدت پسندوں کی تعداد 100 کے لگ بھگ ہے جن میں ٹی ٹی پی کے ایک اہم رہنما غزوان غازی بھی شامل ہیں۔“
مٹہ کے علاقے چیرپال سے تعلق رکھنے والے غزوان غازی ٹی ٹی پی کے درمیانے درجے کے کمانڈروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حال ہی میں ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نور ولی محسود کی جانب سے ناراض گروہوں کو واپس لانے اورنئے جہادی گروہوں کو ٹی ٹی پی میں شامل کرنے کے بعد شدت پسند گروہ کی ازسرنو تنظیم سازی میں غزوان غازی کو ٹی ٹی پی ملٹری کمیشن کے شمالی زون میں شامل کیا گیا۔
میاں سید محمد قریشی اورنعیم خاکسار نامی طالبان شدت پسندوں کے درمیانے درجے کے کمانڈروں کی بھی سوات کی پہاڑیوں پر دیکھے جانے کی غیرمصدقہ اطلاعات ہیں۔
مٹہ کے علاقے سخرہ کے ایک رہائشی محمد خان (فرضی نام) نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے گاؤں کے پانچ شدت پسندوں نے اپنے گھروں کا دورہ کیا، رشتہ داروں سے ملاقاتیں کیں اورواپس چلے گئے۔
ان کے بقول، ”یہ شدت پسند سخرہ میں قتل وغارت میں ملوث رہے مگر گاؤں کے لوگ یہ چہ موگوئیاں کر رہے ہیں کہ ریاست نے انہیں کیوں اورکیسے سوات واپس آنے دیا۔“
کیا مذاکرات بے نتیجہ رہے؟
سوات کے لوگوں میں یہ عمومی طورپر تاثر پایاجا رہاہے کہ افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین جاری مذاکرات کے نتیجے میں ان طالبان شدت پسندوں کی واپسی ممکن ہوئی ہے۔
کابل میں افغان طالبان کی حکومت کی ثالثی میں پاکستانی حکومت اورٹی ٹی پی کے مابین جاری مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے جانب سے جنگ بندی کے لیے جو شرائط رکھی گئیں تھیں، اس میں پاکستانی اداروں کی حراست سے ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی رہائی اور شدت پسندوں کو واپس اپنے اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دینا بھی شامل تھی۔
پاکستان کی کوشش تھی کہ ان مذاکرات کے ذریعے، اپنی شرائط پر، ٹی ٹی پی کو کم سے کم رعایت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی کارروائیاں ختم کر دیں۔
البتہ دو ستمبر کو ٹی ٹی پی نے سیز فائر کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پرالزام عائد کیا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے اسی لیے ان کے مطالبات پرعمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
پشاور میں تعینات قانون نافذ کرنے والے سینئراہلکار کا کہناہے کہ ”یہ بات تو طے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان کابل میں ہونے والے امن مذاکرات میں مفاہمت کے تحت طالبان جنگجو سوات واپس آئے ہوں گے۔"
اُن کے بقول جس طرح سوات کے عوام نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اس پر سیکیورٹی اداروں اور ٹی ٹی پی کی بھی نظر ہو گی۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا کے رکن اسمبلی کے گھر پر دستی بموں سے حملہانہوں نے کہاکہ گزشتہ دنوں ٹی ٹی پی کمانڈر غزوان غازی کی اپنے ساتھیوں سمیت باجوڑ کے راستے افغانستان واپس جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہے۔
سینئر اہلکار پراُمید ہیں کہ سوات میں 2007 سے 2009 جیسا دور واپس نہیں آئے گا، جب طالبان نے ضلع میں اپنا نظامِ حکومت نافذ کر دیا تھا اور لوگوں کی لاشوں کو سرِ عام لٹکایا جا رہا تھا۔ تاہم اُن کے بقول ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات بڑھیں گے اور ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے اراکین ان کا اہم ہدف ہوں گے۔
سوات قومی جرگہ کے ترجمان اورسوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے رہنما زاہد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت اورسیکیورٹی اداروں کی جانب سے طالبان شدت پسندوں کی واپسی کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں نہ لینے اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پراسرارخاموشی سے سوات کے عوام میں شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں۔
زاہد خان سال 2012 میں خود بھی ایک حملے کا نشانہ بنے۔
انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام علاقے میں شدت پسندی کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے اورامن کے لیے مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے۔
ان کے بقول، ”سوات میں دہشت گردی کی نئی لہر کی روک تھام کرنا ریاست کی ذمے داری ہے مگر ریاست عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے جس پر سوات کے عوام کو شدید تشویش ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
ضلع سوات میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پربات چیت کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ برہ بانڈی میں ویلج ڈیفنس کمیٹی کے سربراہ ادریس خان پر حملے کے بعد سوات میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جب کہ ٹی ٹی پی نے بھی صرف اسی حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
ان کے بقول، "ان حالات میں فائرنگ کے کسی بھی واقعے کو طالبان کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔ کئی واقعات میں مسئلہ کچھ ہوتا ہوا اوربعد میں اسے یہ رنگ دیا جاتاہے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے نام سے کسی بھی قسم کے حملے یا واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ کارروائی کی گئی ہو گی کیوں کہ کئی دیگر طالبان گروہ بھی موجود ہیں جو مذاکرات کے خلاف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی رٹ قائم کرنا جانتی ہے مگر پاک افغان سرحد کا انتظام وفاقی حکومت اور وفاقی افسران کا کام ہے۔