بھارت میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کے علاوہ ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔
ان مظاہروں میں آزادی، انقلاب اور مر مٹنے کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ وہیں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی پیش پیش ہیں اور مزاحمتی نظمیں بھی پڑھی جا رہی ہیں۔
حالیہ چند روز کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد شہریت قانون کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیا قانون تعصب پر مبنی اور مسلم اقلیت کے خلاف ہے۔ حکومت کے اس قانون سے بھارت کے سیکیولر تشخص کو دھچکا لگا ہے۔
صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو اکثریت، نچلی ذات سے تعلق رکھنے افراد سمیت پارسی بھی سڑکوں پر نکل رہے ہیں جو نئی قانون سازی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کا نیا شہریت قانون کہتا ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت دی جائے گی ماسوائے مسلمانوں کے۔
SEE ALSO: مودی نے شہریت رجسٹریشن پر امیت شاہ کے بیان کی تردید کر دیوزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کو نئی قانون سازی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم وہ اعلان کر چکے ہیں کہ شہریت قانون مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود ملک بھر میں جاری احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
شہریت قانون کے خلاف احتجاج صرف دارالحکومت نئی دہلی تک ہی نہیں بلکہ ریاست مہاراشٹرا، آسام، گجرات، گوا، مغربی بنگال، اتر پردیش، جھارکھنڈ اور بہار میں بھی جاری ہے۔
اس احتجاج کے دوران جہاں مظاہرین حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں وہیں ان میں انقلاب کی گونج بھی سنائی دے رہی ہیں اور مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز وائرل ہیں جس میں شہریت قانون کے خلاف اور انقلاب اور آزادی جیسے نعرے سنے جا سکتے ہیں۔
We are Bhagat Singh%27s childrenThis girl has given a strong message?We are among the fire extinguishers #IndiaHatesModi#IndiaAgainstCAA_NRC#IndiaRejectsCABpic.twitter.com/R2hih84gWO
— 🇮🇳Desi bhai🇮🇳#VSGT🇮🇳 (@BhaiDesibhai10) December 21, 2019
بھارتی رکن پارلیمنٹ سشی تھرور بھی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے قانون کے طلبہ کے مظاہرے میں شریک ہوئے جس میں مظاہرین آزادی کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔
Kerala’s own @kanhaiyakumar! Law student Manu Arjun leads the chanting of “azaadi!” at the #IndiaAgainstCAA_NRC protest rally organised by @INCKerala in Kozhikode this morning. pic.twitter.com/4DABGAU5Vm
— Shashi Tharoor (@ShashiTharoor) December 21, 2019
واسندھرا جولی نامی ٹوئٹر صارف نے ایک ویڈو شیئر کی تھی جس میں نوجوان طالبات کو نعرے بازی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹوئٹر صارف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اب خواتین انقلاب کی قیادت کریں گی۔
Women will lead this revolution 💪🏽 #IndiaAgainstCAA_NRC #DelhiProtests #ModiShahGoHome pic.twitter.com/uZtI65Hisu
— Vasundhara Jolly (@VasundharaJolly) December 19, 2019
بھارتی ریاست کیرالہ کے ساحلی شہر کوزیکوڈ میں بھی احتجاج کے دوران ایک ایسا ہی نعرہ لگایا گیا جس میں حکومت مخالفت سمیت انقلاب کی گونج سنی جا سکتی ہے۔
Wedding day at Calicut❤❤#IndiaAgainstCAA_NRC pic.twitter.com/aUhEHz26Yw
— Ishaque (@bvishaq) December 22, 2019
ایک مظاہرے کے دوران مظاہرین نغمہ پڑتے رہے کہ اے وطن تیرے لیے ہم گرے ہیں اور مریں گے۔ دل دیا ہے جان بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے۔
"Dil diya hai Jaan bhi dengeAe watan tere liye."The heart and soul of this protest is sleeping on the streets of Shaheen Bagh. There is so much love. #IndiaAgainstCAA_NRC pic.twitter.com/mfKpYJbjl4
— Naomi Barton (@therealnaomib) December 22, 2019
بھارتی شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں سماجی تنظمیں بھی شریک ہیں اور اس سلسلے میں 27 فروری کو ممبئی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے جسے انقلاب کا نام دیا جا رہا ہے۔
Request all my @IndiasMuslims of #Mumbai to pray Namaz e Juma near Byculla/Madanpura Masjids to join 27th Dec Protest on time...Insha%27Allah, After Juma, We will start gathering at Jijamata Udyan Ground, Ranibaugh, Byculla at 2pm#IndiaAgainstCAA_NRC #CAA_NRC_Protest pic.twitter.com/5aGSJqy7LA
— Raafid Shahab (@RaafidShahab) December 23, 2019
بھارت میں ان مظاہروں کے جواب میں حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے حامی بھی سڑکوں پر آئے اور انہوں نے نریندر مودی کے حق میں پاکستان کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔
पीएम मोदी की रैली में इतने ख़तरनाक नारे लगाए जा रहे हैं. बच्चों के दिमाग़ में क्या ज़हर भरा जा रहा है? Video- @ShubhamIIMC pic.twitter.com/Ai9YWVxdeB
— Jyoti Yadav (@jyotiyadaav) December 22, 2019
مظاہرین نعرے بازی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ انقلاب لا کر رہیں گے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق مظاہروں کے دوران پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے کلام کی بھی دھوم مچی ہوئی ہے۔
مظاہروں میں ایسے بینرز و پوسٹرز بھی نظر آتے ہیں جن پر حبیب جالب کی ایک نظم کا یہ مصرعہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ:
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
طلبہ کے کچھ گروہ یہ نظم ساز کے ساتھ گاتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اسی طرح فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے کی بھی خوب دھوم ہے۔ طلبہ اسے بھی سر و ساز کے ساتھ گا رہے ہیں۔ بالخصوص یہ اشعار تو عام سنائی دیتے ہیں کہ:
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
بھارت کے شاعر راحت اندوری کا ایک شعر بھی بے شمار پوسٹرز پر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے لگ بھگ 30، 35 سال قبل ایک غزل کہی تھی جس کا یہ شعر آج کل مظاہرین کی زبان پر ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین عشرے قبل یہ غزل کہی تھی۔ لیکن جب سے حکومت بدلی ہے، ان کی یہ غزل کافی مقبول ہو گئی ہے۔ اور خاص طور پر مذکورہ شعر یادداشتوں کے پردے سے باہر آگیا ہے۔