کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کر دیا۔ 95 فیصد امریکی بھی لاک ڈاؤن میں ہیں۔ امریکی معیشت سست روی کا شکار ہے اور انتخابات کے اس سال میں کوئی سیاسی سرگرمی ممکن نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم، صدر ٹرمپ کرونا وائرس کے خلاف اقدامات سے متعلق میڈیا کو آگاہ کرنے کیلئے روزانہ بریفنگ دیتے ہیں۔ اور اس بریفنگ کے دوران اپنے اقدامات کی ستائش کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی حریفوں پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں، اور یوں ان کی دوبارہ منتخب ہونے کی کوششیں جاری ہیں۔
صدر ٹرمپ ملک کو جلد سے جلد لاک ڈاؤن سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ امریکہ کا صدر ہونے کے باعث انہیں کچھ بھی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے اور وہ ایک حکم سے پورا ملک کھول سکتے ہیں۔
تاہم اگلے ہی روز انہیں احساس ہو چکا تھا کہ یہ اختیار ریاستوں کے گورنروں کے پاس ہے۔ مگر اتنا ضرور ہوا کہ صدر کے حامیوں کو موقع مل گیا اور وہ صدر کے ٹویٹ سے شہ پا کر سڑکوں پر نکل آئے۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں ٹرمپ نے گذشتہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی، جن میں ریاست مشی گن، کینٹکی اور پنسلوینیا شامل ہیں۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ آئین کی پہلی ترمیم کے تحت امریکہ میں اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے اور ریاستوں میں لاک ڈاؤن بھی ایک ہدایت ہی کہی جا سکتی ہے، جس پر عمل نہ کرنے سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
تاہم، سئیٹل یونیورسٹی میں لا کے پروفیسر، ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ تہذیب یافتہ دنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی آفت آئے اور حکومت کی طرف سے کوئی ہدایت دی جائے تو لوگ اس پر عمل کریں گے، کیونکہ اسی میں ان کی اپنی سلامتی ہے اور دوسروں کی بھی۔
انھوں نے کہا کہ "جہاں تک قانونی بات ہے اس حد تک تو میرا نہیں خیال کہ اب تک جس طرح کی ہدایات دی گئی ہیں ان کے تحت جو احتجاج کرنے والےہیں ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ سٹیٹس آگے بڑھیں اور اس میں سختی لائیں اس کو کوئی قانونی شکل دیں۔ لیکن، جیسا کہ سب کو معلوم ہے یہ ایک سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے، کیونکہ شروع دن سے اختلاف رہا ہے''۔
ڈاکٹر طیب محمود نے کہا کہ ''کیلیفورنیا کی جانب سے پہل ہوئی اس کے بعد نیویارک اور اس کے بعد باقی۔ لیکن جو مرکزی حکومت ہے خاص طور پر صدر ٹرمپ کی طرف سے ملے جلے پیغام جاتے رہے۔ شروع سے لے کے آج تک وہ شاید ان کا جو بیس ہے، جس میں لیبریٹیرین بھی ہیں، رائٹ ونگ ہے، پھر اس میں ورکنگ کلاس بھی ہے تو وہ نہیں چاہتے کہ اکانومی بند رہے"۔
انھوں نے کہا کہ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ایک انتہائی سنجیدہ صحت کا مسئلہ، لوگوں کی سلامتی کا معاملہ، دائیں بازو کی قوتوں اور ریاستوں کے درمیان ایک سیاسی فٹبال بن گیا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
کرونا وائرس کی وبا نے لاکھوں امریکیوں کو روزگار سے محروم کر دیا ہے، چنانچہ واضح طور پر یہ سوچا جا رہا ہے کہ اکانومی کو کب تک بند رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں ایسے لوگوں کی امداد کیلئے بحالی کے پیکیج کا اعلان تو کیا گیا مگر ابھی تک یہ امداد بہت لوگوں تک پہنچی نہیں ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ امداد کتنے روز چلے گی۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں ضروری تھا کہ ریاستیں اور مرکزی حکومت ایک ہی بات کرتے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ جو سائنسی نظریہ ہے، جو ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی رائے ہے، واشنگٹن سے پیغام اس کے برعکس آتا رہا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، امریکی ریاست جارجیا کے گورنر نے جو کہ ایک ریپبلکن ہیں لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے اور بعض کاروباری ادارے کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے پہلے فلوریڈا کے ریپبلکن گورنر نے بیچز کھولنے کا اعلان کیا تھا اور بڑی تعداد میں لوگ بیچ پر پہنچ گئے تھے۔
ڈاکٹر عمیر خان جیسے طبی ماہرین اس کے خلاف خبردار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا اور معاشرتی فاصلہ رکھنے پر عمل نہ کیا گیا تو کرونا وائرس پہلے سے زیادہ طاقت سے حملہ کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر طیب محمود کے مطابق، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حالات کس طرف جاتے ہیں۔ البتہ، اگر اموات تھمنے لگیں تو شاید زیادہ چیزیں کھلنے لگیں۔ مگر، تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ احتجاج انہیں ریاستوں میں ہو رہا ہے جہاں خطرہ بھی زیادہ ہے۔ اور آج ہی کی اطلاعات ہیں کہ ریاست کینٹکی میں احتجاجی ریلی کے بعد کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک جلد سے جلد کھول دیا جائے، کیونکہ معیشت کی ابتری کسی طرح ان کے حق میں نہیں جاتی۔
ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر اور ان کے اردگرد جو لوگ ہیں ان کی زیادہ نظر الیکشن لڑنے پر ہے اور اپنے حامیوں میں جوش برقرار رکھنے پر، حالانکہ چاہئے یہ کہ اس وقت جو بین الاقوامی آفت آئی ہے اس کا مداوا کریں۔
وائرس یقیناً کسی آفت سے کم نہیں آج کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں پچیس لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ ہے، جبکہ امریکہ میں سات لاکھ سے زیادہ مریض ہیں اور بیالیس ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔