تحفظ پاکستان بل 2014ء قومی اسمبلی سے منظور

(فائل فوٹو)

ترمیمی بل میں غیر ملکی جرائم پیشہ عناصر سے الگ انداز جب کہ پاکستانی دہشت گردوں اور عام ملزمان سے نمٹنے کے الگ الگ طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان بل 2014ء منظور کر لیا جو اب صدر ممنون حسین کے دستخط کے بعد قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔

حکومت نے حزب مخالف اور حکومتی اتحاد میں شامل بعض جماعتوں کے احتجاج کے باوجود ملک میں ہلاکت خیز دہشت گردی اور لاقانونیت سے نمٹنے کے لیے اپریل میں اس بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروایا تھا۔

بعد ازاں تمام جماعتوں کی مشاورت سے اس بل میں ترامیم کر کے اسے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش کیا گیا جس نے اوائل ہفتہ اسے منظور کر لیا اور اسے دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

​بدھ کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کے تحت پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ پر حملہ، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کا قتل، طیاروں اور ہوائی اڈوں، گیس اور تیل کی پائپ لائنز، قومی دفاعی ساز و سامان، مواصلاتی نظام و آلات اور بجلی پیدا اور تقسیم کرنے کے نظام پر حملے، خودکش دھماکے، بم بنانے کا مواد رکھنے، سماجی کارکنوں، محکمہ صحت کے عملے، رضا کاروں کا قتل و اغوا، سائبر کرائم، نسلی و مذہبی گروپس یا اقلیتوں کے خلاف امتیاز اور نفرت ابھارنے سمیت ایسی کئی غیر قانونی کارروائیاں ملک کے خلاف جنگ اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے زمرے میں آئیں گی۔

ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جن کے فیصلوں کے خلاف ملزم تیس روز میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔

منظور شدہ بل کے تحت موبائل فون ای میلز، رابطوں یا پیغامات کا ریکارڈ بطور شہادت قبول ہوگا۔

ترمیمی بل میں غیر ملکی جرائم پیشہ عناصر سے الگ انداز جب کہ پاکستانی دہشت گردوں اور عام ملزمان سے نمٹنے کے الگ الگ طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔

تحفظ پاکستان بل 2014ء کے تحت کسی بھی ملزم کو بغیر مقدمہ درج کیے ساٹھ دنوں تک سکیورٹی فورسز اپنی حراست میں رکھ سکیں گی جب کہ قانون نافذ کرنے والےاداروں کے گریڈ 15 سے اوپر کے کسی بھی افسر کو مشکوک شخص پر گولی چلانے کا حکم دینے کا اختیار ہو گا۔ اس افسر کو تحقیقات کے دوران اس حکم کی معقول وجہ بیان کرنا ہوگی۔

اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر وارنٹ کے کسی بھی مشکوک جگہ کی تلاشی لے سکیں گے۔

علاوہ ازیں استغاثہ، گواہان اور خصوصی عدالت کے ججز کو مناسب تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ یہ قانون دو سال کے لیے نافذ العمل ہوگا۔

قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ منظور ہونے والا ترمیمی بل پہلے پیش کیے گئے اصل مسودہ قانون سے بہتر ہے اور اس میں نگرانی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔

"ہم ابھی سمجھتے ہیں کہ قانون سخت ہے لیکن یہ اس سے بہت بہتر ہے جو پہلے پیش کیا گیا تھا کہ اس میں ہم نے کوشش کی ہے کہ اس قانون پر عدلیہ اور پارلیمان کی نظر ہو جو کہ پہلے نہیں تھا تو اس میں، تو یہ تھوڑا بہتر ہوگیا ہے۔"

حکموتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس بل کی منظوری سے پارلیمان نے ملک دشمن عناصر کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب اُن سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔