جسٹس فخر الدین جی ابراہیم ماضی میں اٹارنی جنرل، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے جج، گورنر سندھ اور وفاقی وزیرِ قانون رہ چکے ہیں۔
نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے قائم کردہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے پیر کو اس عہدے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج فخر الدین جی ابراہیم کے نام کی متفقہ طور پر منظوری دیدی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں ان کی تقرری کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔
ماضی میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس تھا لیکن موجودہ دورِ حکومت میں آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ اختیار پارلیمانی کمیٹی کو سونپ دیا گیا ہے جب کہ اس عہدے پر تعیناتی کی میعاد بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔
یاد رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ جسٹس (ر) حامد علی مرزا کی عہدے کی معیاد ختم ہونے کے بعد 24 مارچ سے خالی ہے اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاکر اللہ جان قائم مقام الیکشن کمشنر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اس عہدے کے لیے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا نام حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے تجویز کیا تھا جسے پارلیمان سے باہر حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں، بشمول پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا شمار پاکستان کے چوٹی کے آئینی ماہرین میں ہوتا ہے اور وہ ماضی میں اٹارنی جنرل، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے جج، گورنر سندھ اور وفاقی وزیرِ قانون کے عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔
ایک اصول پسند، لبرل، جمہوریت پرست اور غیر متنازع شخصیت کی شناخت رکھنے والے فخر الدین جی ابراہیم کو ملک کے تمام حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس لیے امید ہے کہ اس عہدے پر ان کی نامزدگی کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا جائے گا۔
گجراتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس فخر الدین 12 فروری 1928 کو بھارتی ریاست گجرات کے شہرت احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ 1945 میں 'گجرات یونی ورسٹی ' میں داخلہ لیا جہاں سے 1949ء 'ایل ایل بی' کی سند حاصل کی۔
1950 میں پاکستان آگئے جہاں کراچی کے 'سندھ مسلم لاء کالج' سے 'ایل ایل ایم' کرنے کے بعد وکالت کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے اسی کالج میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے فخر الدین جی ابراہیم کو اپنی حکومت میں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ گو کہ بعد ازاں فخر الدین اس عہدے سے مستعفی ہوگئے لیکن وہ ذوالفقار بھٹو کو قانونی مشاورت فراہم کرتے رہے۔
70ء کے عشرے کے اختتامی برسوں میں انہیں پہلے سندھ ہائی کورٹ کا جج اور پھر چیف جسٹس مقرر کیا گیا جہاں سے بعد ازاں وہ سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات ہوئے۔
فخر الدین جی ابراہیم عدالتِ عظمیٰ کے ان چند ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے مارچ 1981ء میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے عبوری آئینی حکم (پی سی او) کے تحت نیا حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ جج کے منصب سے علیحدگی کے بعد وہ ایک بار پھر وکالت کے میدان میں آگئے اور کئی 'ہائی پروفائل' کیسز کی پیروی کی۔
1988 کے عام انتخابات کے نتیجے میں جب ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس وقت کی وزیرِاعظم بے نظiر بھٹو کی تجویز پر انہیں اپریل 1989ء میں صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا۔
وہ اس عہدے پر اگست 1990ء تک خدمات انجام دیتے رہے اور صدر غلام اسحق خان کی جانب سے منتخب اسمبلی تحلیل کیے جانے کے نتیجے میں بے نظیر حکومت کے خاتمے پر احتجاجاً اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
سنہ 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد صدر فاروق لغاری کی جانب سے نامزد کردہ نگراں حکومت میں فخر الدین جی ابراہیم نے مختصر مدت کے لیے وزیرِ قانون کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں لیکن بعد ازاں اختلافات کی بنیاد پر اس عہدے سے بھی استعفیٰ دیدیا۔
فخر الدین جی ابراہیم ، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مختلف تحقیقاتی کمیٹیوں کی بھی سربراہی کر چکے ہیں اور اس حیثیت میں ان کے فیصلوں کے باعث انہیں پاکستان کرکٹ اورکھلاڑیوں کا خیر خواہ سمجھا جاتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے آخری اور موجودہ حکومت کے ابتدائی برسوں میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی جسٹس فخر الدین ابراہیم نے سرگرم کردار ادا کیا اور ملک میں قانون و انصاف کی بالادستی اور معزول ججوں کی بحالی کے لیے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی۔
ان کا شمار موجودہ حکومت کے ناقدین میں ہوتا ہے اور اس لیے حکومت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر ان کے تقرر پر آمادگی پہ سیاسی حلقے خوش گوار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور عام انتخابات کے انعقاد میں ایک برس سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، 84 سالہ فخر الدین اس پیرانہ سالی میں اس اہم ذمہ داری کے تقاضے کس طرح نبھائیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
ماضی میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس تھا لیکن موجودہ دورِ حکومت میں آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ اختیار پارلیمانی کمیٹی کو سونپ دیا گیا ہے جب کہ اس عہدے پر تعیناتی کی میعاد بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔
یاد رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ جسٹس (ر) حامد علی مرزا کی عہدے کی معیاد ختم ہونے کے بعد 24 مارچ سے خالی ہے اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاکر اللہ جان قائم مقام الیکشن کمشنر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا نام حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے تجویز کیا تھا جسے تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
اس عہدے کے لیے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا نام حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے تجویز کیا تھا جسے پارلیمان سے باہر حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں، بشمول پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا شمار پاکستان کے چوٹی کے آئینی ماہرین میں ہوتا ہے اور وہ ماضی میں اٹارنی جنرل، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے جج، گورنر سندھ اور وفاقی وزیرِ قانون کے عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔
ایک اصول پسند، لبرل، جمہوریت پرست اور غیر متنازع شخصیت کی شناخت رکھنے والے فخر الدین جی ابراہیم کو ملک کے تمام حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس لیے امید ہے کہ اس عہدے پر ان کی نامزدگی کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا جائے گا۔
گجراتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس فخر الدین 12 فروری 1928 کو بھارتی ریاست گجرات کے شہرت احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ 1945 میں 'گجرات یونی ورسٹی ' میں داخلہ لیا جہاں سے 1949ء 'ایل ایل بی' کی سند حاصل کی۔
1950 میں پاکستان آگئے جہاں کراچی کے 'سندھ مسلم لاء کالج' سے 'ایل ایل ایم' کرنے کے بعد وکالت کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے اسی کالج میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے فخر الدین جی ابراہیم کو اپنی حکومت میں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ گو کہ بعد ازاں فخر الدین اس عہدے سے مستعفی ہوگئے لیکن وہ ذوالفقار بھٹو کو قانونی مشاورت فراہم کرتے رہے۔
70ء کے عشرے کے اختتامی برسوں میں انہیں پہلے سندھ ہائی کورٹ کا جج اور پھر چیف جسٹس مقرر کیا گیا جہاں سے بعد ازاں وہ سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تعینات ہوئے۔
فخر الدین جی ابراہیم عدالتِ عظمیٰ کے ان چند ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے مارچ 1981ء میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے عبوری آئینی حکم (پی سی او) کے تحت نیا حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ جج کے منصب سے علیحدگی کے بعد وہ ایک بار پھر وکالت کے میدان میں آگئے اور کئی 'ہائی پروفائل' کیسز کی پیروی کی۔
1988 کے عام انتخابات کے نتیجے میں جب ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس وقت کی وزیرِاعظم بے نظiر بھٹو کی تجویز پر انہیں اپریل 1989ء میں صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا۔
وہ اس عہدے پر اگست 1990ء تک خدمات انجام دیتے رہے اور صدر غلام اسحق خان کی جانب سے منتخب اسمبلی تحلیل کیے جانے کے نتیجے میں بے نظیر حکومت کے خاتمے پر احتجاجاً اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
سنہ 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد صدر فاروق لغاری کی جانب سے نامزد کردہ نگراں حکومت میں فخر الدین جی ابراہیم نے مختصر مدت کے لیے وزیرِ قانون کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں لیکن بعد ازاں اختلافات کی بنیاد پر اس عہدے سے بھی استعفیٰ دیدیا۔
فخر الدین جی ابراہیم ، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مختلف تحقیقاتی کمیٹیوں کی بھی سربراہی کر چکے ہیں اور اس حیثیت میں ان کے فیصلوں کے باعث انہیں پاکستان کرکٹ اورکھلاڑیوں کا خیر خواہ سمجھا جاتا ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم کا شمار موجودہ حکومت کے ناقدین میں ہوتا ہے
سابق صدر پرویز مشرف کے آخری اور موجودہ حکومت کے ابتدائی برسوں میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی جسٹس فخر الدین ابراہیم نے سرگرم کردار ادا کیا اور ملک میں قانون و انصاف کی بالادستی اور معزول ججوں کی بحالی کے لیے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی۔
ان کا شمار موجودہ حکومت کے ناقدین میں ہوتا ہے اور اس لیے حکومت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر ان کے تقرر پر آمادگی پہ سیاسی حلقے خوش گوار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور عام انتخابات کے انعقاد میں ایک برس سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، 84 سالہ فخر الدین اس پیرانہ سالی میں اس اہم ذمہ داری کے تقاضے کس طرح نبھائیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔