|
لاہور میں ہفتے کو پانچویں سالانہ 'عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2024' کے دوران مقررین نے پاکستان میں حالیہ قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کیا وہیں سپریم کورٹ کے سینئر جج نے عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بہتری لانے کی ضرورت پر زور دیا۔
دو روز تک جاری رہنے والی کانفرنس کا موضوع 'عوامی مینڈیٹ اور جنوبی ایشیا میں شہری حقوق کا تحفظ' ہے۔ شرکاء نے پاکستان میں آئین و قانون کی عمل داری، انسانی حقوق، آزادیٔ اظہار اور حالیہ انتخابات پر گفتگو کی۔
کانفرنس کے پہلے روز 'شہری حقوق اور عدلیہ کا کردار' کے عنوان کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں نظامِ انصاف سست روی کا شکار ہے اور اس وقت 24 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ زیرِ التوا مقدمات کے فیصلوں کے لیے ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) کا استعمال ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر شخص کہتا ہے کہ سول کورٹ سے سپریم کورٹ تک کیس کو 20 سال لگ جاتے ہیں جب کہ ورلڈ رینکنگ میں پاکستان کی عدلیہ 142 میں سے 130ویں نمبر پر ہے جو کہ بہت برا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ اگر عدالتی سسٹم چلانا ہے تو ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی جج کام نہیں کر رہا اسے اٹھا کر باہر پھینکنا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کام نہ کرنے والا جج سسٹم کا حصہ رہے۔
عدالتی امور میں مداخلت پر بات کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ اگر متحد رہے تو کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختیارات کو کم کیا شاید ماضی میں ایسا کسی نے نہیں کیا۔
یاد رہے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے موضوعات اور اس میں ہونے والی گفتگو بعض اوقات تنازعات کو جنم دیتی ہے اور اس پر گفتگو بھی ہوتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور بیرسٹر علی ظفر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ایسی قانون سازی ہوئی جسے پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں اس طرح بھی ہوتا رہا ہے کہ کوئی بل آتا جو بس اسٹیمپ ہونے کے بعد بل منظور ہوجاتا تھا۔ ایسی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ عدلیہ حکومتی پالیسیوں میں مداخلت کرتی ہے۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کرے گی آئینی طور پر یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
حکومت سوشل میڈیا کے نامناسب استعمال کی روک تھام کے بارے میں کام کر رہی ہے اور اِس بارے میں پالیسی بنائی جا رہی ہے۔
پاکستان میں برطانیہ کی ہائی کمیشن جین میریٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' کی سروس بحال ہونی چاہیے۔ نئی حکومت بن چکی ہے جسے چاہیے کہ وہ شہریوں کے لیے مساوات کے ساتھ پالیساں بنائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو بڑی تعداد میں شہریوں نے ووٹ کاسٹ کیا لیکن انتخابات کے روز انٹرنیٹ سروس بند تھی۔
جرمن سفیر کے خطاب کے دوران ہنگامہ
عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس اسٹیج پر موجود تھے اس دوران قانون کے کچھ طالب علموں اور شرکاء نے احتجاج کیا۔ جس پر انتظامیہ نے انہیں ہال سے باہر نکال دیا۔
احتجاج کرنے والے طالب علموں کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین کے لوگوں پر ظلم کر رہا ہے۔ جرمن حکومت اسرائیلی مظالم پر بات کیوں نہیں کرتی۔
طلبہ کے احتجاج پر جرمنی کے سفیر نے کہا کہ اگر آپ چیخنا چاہتے ہیں تو آپ ہال سے باہر چلے جائیں کیوں کہ چیخنا چلانا بات کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے بعد 'پارلیمنٹری جمہوریت' کے عنوان سے گفتگو میں شریک پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی جمہوری وزیرِ اعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کی۔
انتخابی دھاندلی پر بات کرتے ہوئے نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ لیکن ان کے بقول 2018 میں جتنی دھاندلی ہوئی 2024 میں اتنی نہیں ہوئی۔
SEE ALSO: عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مبینہ غیرملکی فنڈنگ: کیا پاکستان کا سفارتی سطح پر معاملہ اٹھانے کا فیصلہ درست ہے؟پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ نفرت کے بیج کو ختم کرنا ہوگا جس کے لیے پارلیمنٹ اور عوام کا براہِ راست رابطہ ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹری جمہوریت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ پارلیمنٹیرین سکول، سڑکوں یا صفائی ستھرائی کا ذمہ دار نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں تمام شہریوں کی عزت ہونی چاہیے یہ نہیں کہ یہاں صرف ووٹ ڈالنے والوں کی عزت ہو۔ سب کو مل کر عوام کا حق حکمرانیت بحال کرنا ہے۔