طالبان اور افغان حکومت کی جانب سے قیدیوں کے مجوزہ تبادلے کے معاملے پر کوئی مزید پیش رفت سامنے نہیں آئی جبکہ طالبان اور افغان حکومت کے اہلکار کچھ کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔
گزشتہ منگل کو افغان صدر اشرف غنی نے اعلان کیا تھا کہ مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے دو مغوی پروفیسروں کے بدلے تین طالبان قیدیوں کی مشروط طور پر رہائی عمل میں آ سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بات افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہی تھی۔
قیدیوں کے تبادلے میں طالبان ایک امریکی شہری کیون کنگ اور ایک آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس کو رہا کرنے والے تھے۔ دونوں پروفیسروں کو اگست 2016 ء میں کابل سے اغوا کیا گیا تھا۔
طالبان کے تین سینئر قیدیوں کی رہائی سے متعلق متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
طالبان کے قریبی ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ طالبان قیدیوں کو اب تک رہا کر کے قطر نہیں لایا گیا جب کہ طالبان نے افغانستان کی امریکی یونیورسٹی کے دو مغوی پروفیسروں کو بھی رہا نہیں کیا۔
ادھر، طالبان کی دعوت پر قطر میں موجود نامور سیاسی تجزیہ کار اسد واحدی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان قیدی اس وقت امریکہ کی تحویل میں ہیں۔
دریں اثنا، افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ کابل میں واقع امریکن یونیورسٹی کے دو مغوی پروفیسروں کی رہائی کے بدلے طالبان سے منسلک شدّت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے تین قیدیوں کو "مشروط طور پر رہا کیا جا رہا ہے۔"
رہائی پانے والوں سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اُن میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما جلال الدین حقانی کے بیٹے انس حقانی بھی شامل ہیں، جلال الدین حقانی 2018 میں انتقال کر گئے تھے۔