آج جمعرات کے روز برطانیہ کی سابق شہزادی ڈیانا کے بیسویں یوم وفات کے موقع پر بہت سے افراد برطانیہ کے کین سنگٹن محل اور پیرس میں ڈیانا کی یادگار پر اکٹھے ہوئے اور اُنہیں خراج تحسین پیش کیا۔
لوگوں نے کین سنگٹن محل کے باہر گلدستے رکھے اور شمعیں روشن کیں۔ ڈیانا اسی محل میں اپنے دونوں بیٹوں شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔
بدھ کے روز ولیم، ہیری اور ولیم کی اہلیہ کیٹ نے محل کے اُس باغ کا دورہ کیا جو ڈیانا سے منسوب ہے۔ اُنہوں نے اُن خیراتی اداروں کے نمائیندوں سے بھی ملاقات کی جن کی ڈیانا بھرپور مدد کیا کرتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اپنی والدہ شہزادی ڈیانا کے یوم وفات پر ولیم اور ہیری اپنی تمام مصروفیات منسوخ کر کے نجی حیثیت میں وقت گزار رہے ہیں۔
پیرس میں بہت سے لوگ لیڈی ڈیانا کی یاد میں فلیم آف لبرٹی کے مجسمے پر اکٹھے ہوئے۔ یہ مجسمہ نیو یارک کے آزادی کے مجسمے کی نقل ہے تاہم اب اسے لیڈی ڈیانا کی یادگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔یہ مجسمہ اُس سرنگ کے اوپر نصب ہے جس میں 1997 میں گاڑی کے ایک حادثے میں ڈیانا کی موت واقع ہو گئی تھی۔
ڈیانا کے ساتھ ساتھ اُن کے دوست ڈوڈی فائید اور اُن کا ڈرائیور ہینری پال اُس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب اُن کا پیچھا کرنے والے فوٹوگرافروں سے بچنے کی کوشش میں تیز رفتار گاڑی الما نامی اس سرنگ میں ایک پول سے ٹکرا گئی تھی۔
لیڈی ڈیانا 1981 میں برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس سے شادی کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہو گئی تھیں۔ تاہم اُن کی مخصوص شخصیت کے باعث وہ عوامی شہزادی کے طور پر شہرت اختیار کر گئیں۔ لیکن ڈیانا اور چارلس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور 1996 میں اُن میں طلاق ہو گئی۔
آئینی بادشاہت کیلئے آسٹریلیہ کے قومی کنوینر ڈیوڈ فلنٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لیڈی ڈیانا کے یوم وفات پر لوگوں کے جذبات غیر معمولی تھے۔ فلنٹ کا کہنا تھا، ’’اُن کی وفات کا دکھ نہ صرف برطانیہ بلکہ آسٹریلیہ، امریکہ اور کنیڈا سمیت بہت سے ملکوں میں شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔‘‘
وفات کے وقت ڈیانا کی عمر 36 برس تھی جبکہ اُن کے بیٹوں کی عمریں 15 اور 12 برس تھیں۔
ڈیوڈ فلنٹ کہتے ہیں، ’’اُن کی خوبصورتی خاص طور پر یاد رکھی جائے گی کیونکہ وہ غیر معمولی طور پر حسین خاتون تھیں۔ لیکن اُن کے حسن کے ساتھ ساتھ کم عمری میں اُن کی موت کا المیہ اور اُس کا احساس لوگوں کے دلوں میں شدت سے موجود ہے۔ وہ برطانیہ کی ملکہ بن سکتی تھیں لیکن یہ اُن کی قسمت میں نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اُنہیں بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں دھوکہ دیا۔ میرے خیال میں یہ سب اُن کی میراث ہے۔ لیکن اُن کی سب سے بڑی وراثت اُن کے بیٹے ولیم اور ہیری ہیں۔‘‘