عمران خان نے باقاعدہ طور پر اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے چار برس بعد 1996 میں کیا۔ اپنے سیاسی کیرئر کے دوران اُنہوں نے خود کو کرکٹ کے معاملات سے بڑی حد تک دور رکھا۔ کرکٹ سے اُن کا واحد رابطہ یہی تھا کہ اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم اور تقاریر میں کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کیں۔ پچھلے پانچ برس کے دوران امپائر کی انگلی کی اصطلاح کا بہت چرچا رہا۔ اُن کی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان بھی بلّا تھا۔
عمران خان نے اپنے کرکٹ کا آغاز 1971 میں کیا اور اُس وقت سے 1992 میں ورلڈ کپ جیتے تک کے لگ بھگ 20 برسوں کے دوران زیادہ تر عرصے میں عمران خان کو دنیا کے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں شمار کیا گیا۔ پہلے فاسٹ بالر کی حیثیت سے اور پھر بعد میں دھواں دار بیٹنگ کے حوالے سے اُنہوں نے اپنا لوہا منوایا۔
تاہم، اُن کی شہرت اُس وقت بلندیوں پر پہنچ گئی جب اُنہوں نے 1982 میں ٹیم کی قیادت سنبھالی۔ اُن کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز کے ساتھ ساتھ دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہونے لگی۔ اسی دور میں عمران نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی کارکردگی کو نکھارنے میں اُن کی راہنمائی کی اور نئے کھلاڑیوں کیلئے ’مینٹور‘ یعنی راہنما کی حیثیت کا شہرہ پایا۔
ماہرین اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انتخابی کامیابی اور اب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، عمران خان پاکستان کرکٹ بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ وہ پی سی بی کے آئین کے مطابق، اس کے ’پیٹرن اِن چیف‘ ہوں گے اور اُنہیں نہ صرف پی سی بی کے بورڈ میں دو ارکان کو براہ راست نامزد کرنے کا اختیار ہوگا بلکہ موجودہ چیئرمین کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے برطرف کرنے کا اختیار بھی اُنہیں حاصل ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی سی بی کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی سے اُن کا اُس وقت سے مسلسل شدید اختلاف رہا ہے جب نجم سیٹھی 2013 میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر کئے گئے۔ عمران خان اُن پر ’’35 پنکچر‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات کے دوران مسلم لیگ نون کے اُمیدواروں کو کامیاب کرانے کیلئے کردار ادا کیا۔ نجم سیٹھی نہ صرف ان الزامات سے انکار کرتے رہے بلکہ میڈیا کے ذریعے عمران خان پر شدید تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ یوں اس بات کا قوی امکان ہے کہ حلف اُٹھانے کے بعد نجم سیٹھی کی چھٹی کر دی جائے۔ بعض حلقوں کی طرف سے پی سی بی کے نئے چیئرمین کے طور پر احسان مانی کا نام ابھی سے گردش کرنے لگا ہے۔
ماہرین اس بات کا بھی امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے داخلی کرکٹ نظام پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ وہ طویل عرصے سے پاکستانی کرکٹ سیٹ اپ کے شدید مخالف رہے ہیں جس میں علاقائی ٹیموں کے بجائے مختلف محکموں کی ٹیمیں ملک کے فرسٹ کلاس کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں۔ عمران خان کرکٹ سیٹ اپ کے حوالے سے آسٹریلوی ماڈل کے حامی رہے ہیں جس میں صرف چند علاقائی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور یوں اس نظام میں تعداد کے بجائے معیار بہتر سے بہتر کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔
بہرحال یہ دنیا میں شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک کرکٹ سٹار ملک کی باگ ڈور سنبھال رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں عمران خان کے حالیہ طور پر سب سے بڑے مخالف سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کرکٹ میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم، اُنہوں نے اپنی زندگی میں صرف ایک فرسٹ کلاس میچ ہی کھیلا تھا۔ 1974 میں کھیلے گئے اس میچ میں وہ ریلوے کی طرف سے پی آئی اے کے خلاف کھیلتے ہوئے بغیر کوئی رن بنائے صفر پر آؤٹ ہو گئے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کرکٹ کے میدان میں اپنا پہلا باؤنسر کب پھینکتے ہیں۔