لاہور میں اتوار کو ہونے والے بم حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اپنا دورۂ امریکہ منسوخ کر دیا ہے جہاں انہوں نے جوہری سلامتی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم دورہ ہے اور وزیراعظم کا نا جانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد کسی حد تک حکومت کو پریشان کرنے کے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔
’’میرے نزدیک یہ بہت اہم دورہ تھا اور وزیراعظم کو اس پر چلے جانا چاہیئے تھا کیونکہ اس میں سربراہان مملکت اور حکومت شریک ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان بھارت مخاصمت کے حوالے سے کافی توجہ پاکستان پر ہوتی ہے۔ جب وزیراعطم نہیں جائیں گے تو انہیں وہ توجہ نہیں مل سکے گی۔‘‘
تاہم تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ایسے وقت جب ملک ایک سانحے سے دوچار ہے وزیراعظم کی طرف سے امریکہ کا دورہ منسوخ کرنا سیاسی لحاظ سے ایک درست فیصلہ تھا۔
وزیراعظم کی جگہ اب ان کے معاون خصوصی طارق فاطمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔ حسن عسکری کا کہنا تھا کہ طارق فاطمی کا درجہ وزیر مملکت کا ہے اور پروٹوکول کے لحاظ کئی جگہوں پر ان کی رسائی نہیں ہو گی۔
توقع کی جارہی تھی کہ جوہری سلامتی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم امریکہ کے صدر براک اوباما اور اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امریکہ کی طرف سے حالیہ دنوں میں پاکستان پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی لائے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ اسے بھارت کی طرح جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شامل کیا جائے جہاں اسے جدید جوہری ٹیکنالوجی اور مواد تک رسائی حاصل ہو۔
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ان معاملات پر پاکستان کی وکالت اتنے بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گی۔
مگر ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان کا وفد بہرحال اپنا مؤقف پیش کرے گا۔
’’اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جب واشنگٹن میں اسٹریٹجک ڈائیلاگ ہوا تھا جس کی قیادت سرتاج عزیز صاحب کر رہے تھے، اس میں پاکستان نے دوٹوک انداز میں اپنا جوہری مؤقف واضح کر دیا۔ پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی تعداد میں کمی لائے اور پاکستان نے واضح الفاظ میں انکار کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے دفاع کا حصہ ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ سویلیئن جوہری معاہدہ چاہتا ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے جوہری پروگرام پر کوئی قدغن قبول نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں بھی کسی اہم پیش رفت کی توقع نہیں تھی کیونکہ اس وقت پاکستان میں بھارتی جاسوس کی گرفتاری اور بھارت میں پاکستان کی پٹھان کوٹ پر تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال بہت نازک ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ وزیر اعظم نے داخلی حالات کے باعث ایک اہم دورہ منسوخ کیا کیونکہ ماضی میں بھی اہم اوقات پر ان کے غیر ملکی دوروں پر تنقید کی جا چکی ہے۔
’’اگر وہ دورہ جاری رکھتے اور منسوخ نہیں کرتے اور کوئی ٹھوس اقدامات کا اعلان کرکے جاتے تو شاید تنقید اتنی نہیں ہوتی۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ اب تک نہیں کیے گئے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ دورہ منسوخ کرنے کی ایک اہم وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گڑھ یعنی پنجاب کے دارالحکومت لاہور پر حملہ ہونا ہے۔ ان کے بقول ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ فوج پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب فوج اور حکومت کے تعلقات ایک نئی سمت جارہے ہیں وزیراعظم نے ملک میں رہنا ضروری سمجھا۔