"سر اگر پاکستان میں ہالی وڈ فلم' فاریسٹ گمپ' بنتی تواس میں ہیرو آپ ہوتے۔ یہ بات میں نے 10 سال قبل اس وقت عمران اسلم سے کہی تھی جب میں ’جیو نیوز‘ میں ملازمت کرتا تھا۔"
وہ حسب عادت کینٹین کے باہر کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ کوئی اور شخص یہ بات سن کر شاید صرف مسکرا دیتا لیکن 'باس' نے جواب میں کہا کہ 'اور کیا آپ اسے لکھیں گے'؟
عمران اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ہر شخص کے پاس ایسی نہ جانے کتنی یادیں ہوں گی ۔کیوں کہ وہ جیو اور جنگ گروپ کے صدر ہونے کے باوجود ہر ایک سے اسی طرح ملتے تھے جیسے وہ اس کے ساتھی ورکر ہوں۔
عمران اسلم 1952 میں بھارت کے شہر چنئی میں پیدا ہوئے، اپنے والدین کے ہمراہ وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے جہاں سے وہ ستر کی دہائی میں تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے تھے۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم مکمل کرنےکے بعد انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کچھ عرصہ متحدہ عرب امارات میں شیخ زاید بن سلطان النہیان کے ساتھ کام کیا۔
عرب امارات سے واپسی کے بعد عمران اسلم نے پاکستان کے میڈیا میں اپنے کرئیر کا آغاز کیا اور صحافت اور فن کے شعبوں میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ کچھ عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور جمعے کی صبح زندگی کی بازی ہار گئے۔
عمران اسلم، ایک آل راؤنڈر
عمران اسلم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔انہیں آل راؤنڈر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے جس میدان میں قدم رکھا اپنا لوہا منوایا۔ متحدہ عرب امارات کی قومی ائیرلائن کا نام تجویز کرنے سے لے کر، ٹی وی کمرشل 'مجھے ٹک ٹک کے ساتھ چاہئے' کی لائن تک اشتہارات کے شعبے میں وہ اپنے تخلیقی ذہن کی کتنی ہی یادگاریں چھوڑ کر گئے ہیں۔
وسیع مطالعہ عمران اسلم کی ایک اور انفرادیت تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے اہم واقعات پر ان کی گہری نظر تھی۔ ہم جیسے صحافیوں کے لئے وہ وکی پیڈیا سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد تھے۔
ان کی معلومات کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ وہ وحید مراد کی فن و شخصیت پر بات کرنا شروع کرتے تو فلم بینی کا دعویٰ رکھنے والے حیران ہوجاتے اور جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت موضوعِ گفتگو ہو تو ایک کےبعد ایک تاریخی حقائق بیان کرتے چلے جائیں۔وہ ہر موضوع پر نہ صرف گفتگو کرسکتے تھے بلکہ اس بارے میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو بتاسکتے تھے جو سننے والوں کے لیے نیا ہو۔وہ روایتی افسران کی طرح دفتر میں نہیں بیٹھتے تھے، یہ ان کا مزاج ہی نہیں تھا۔
Deeply saddened 💔to hear about Imran Aslam’s passing in Karachi. Describing what he was or what he excelled in is beyond this space. Tippu as he was known, was a polymath,as well as a dear friend from decades of journalism together. Pakistan’s cultural space lost a big creator.
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) December 2, 2022
نوے کی دہائی میں انگریزی اخبار 'دی نیوز' کا اجرا کرنے سے پہلے وہ 'ڈیلی اسٹار' کے ساتھ جڑے رہے۔صحافت میں آنے سے قبل وہ متحدہ عرب امارات میں شیخ زید بن سلطان النہیان کے ذاتی عملے میں شامل تھے۔ وہیں انہوں نے ’ایمریٹس ایئرلائنز‘ کا نام بھی تجویز کیا تھا، اور اس نئی ایئرلائن کے عملے کی تربیت کے لیے پی آئی اے سے رابطہ بھی کرایا تھا۔
RIP Guru Imran Aslam. Remembering how much fun we had that evening on my birthday. @mohammedhanif @ZarrarKhuhro pic.twitter.com/KzISsQLX4f
— Owais Tohid (@OwaisTohid) December 2, 2022
صدا کاری اور ادا کاری
ٹی وی پر چلنے والے ایسے لاتعداد کمرشلز ہیں جن میں عمران اسلم نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ صداکاری کی مہارت انہوں نے تھیئٹر سے سیکھی جس کے ساتھ وہ کافی عرصہ وابستہ رہے۔ انہوں نے اسٹیج پر اداکاری کے ساتھ ساتھ اسکرپٹ بھی لکھے جنہیں شائقین نے بے حد پسند کیا۔
ایک بار اداکار محمد قوی خان نے مجھ سے پوچھا کہ 'عمران کیسا ہے؟'۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کس عمران کی بات کررہے ہیں؟ قوی صاحب کے جواب ' نے مجھےمجبور کردیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ وہ انہیں کیسے جانتے ہیں۔ اس کے بعد قوی صاحب نے ان کی اداکاری کے جو قصیدے پڑھے تو مجھے یقین نہیں آیا کہ عمران اسلم ہی کی بات ہورہی ہے ۔
ان کے ساتھ اسٹیج پر کام کرنے والے انہیں آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ لیکن ٹی وی اور فلم میں انہوں نےاداکاری نہیں کی جس کی وجہ صحافت میں ان کی مصروفیت ہوسکتی ہے۔ ہدایتکار عاصم رضا کی فلم 'پرے ہٹ لو' میں انہوں نے ایک بوڑھے کا چھوٹا سا رول کیا تھا، جس پر فلم کے پریمئر میں خوب تالیاں بجی تھیں۔
The giant of journalism and a dear friend has left us. Imran Aslam sb—profound journalist, prolific writer and visionary who took Geo Network to great heights. May you wield the pen in the other world. RIP🙏🏽 pic.twitter.com/GDYa73DKlL
— Adnan Siddiqui (@adnanactor) December 2, 2022
انہوں نے اداکاری کا شوق کمرشلز کے وائس اوور کے ذریعے پورا کیا۔ آج بھی ٹی وی پر چلنے والے کئی کمرشلز میں ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔چند سال پہلے کینسر کی وجہ سے انہوں نے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی لیکن ان کی آواز اب کتنے ہی سننے والوں کے حافظے کا حصہ بن چکی ہے۔
ڈرامہ نگاری
بہت کم لوگ یہ بات جانتے تھے کہ معین اختر کا مشہورِ زمانہ کھیل 'روزی' عمران اسلم نے لکھا تھا۔ جب معین اختر کے انتقال پر کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کون ہے جس نے مرحوم کے ساتھ کام کیا، تو میں نے 'باس' سے رجوع کرنے کے لیے کہا۔ پہلے تو کسی کو یقین نہیں آیا اور پھر جب آیا تو عمران صاحب نے کمنٹس دینے ہی سے انکار کردیا۔
وہ ایک بڑے صحافی کے ساتھ ساتھ ایک بڑے لکھاری بھی تھے اور انہوں نے 80ء کی دہائی میں 'خلیج' اور 'دستک' جیسے ہٹ ڈرامے لکھے جو لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ جب معروف اداکار ندیم بیگ نے فلموں سے ٹی وی کا رخ کیا، تو انہوں نے بھی عمران اسلم کی اسکرپٹ 'بساط' کو ترجیح دی تھی۔
I have lost my mentor today. Imran Aslam was a giant of Journalism, they don%27t make people like him anymore. This is such an irreparable loss for his family and friends. May Allah rest his soul in Peace, Ameen.
— Iftikhar Ahmad (@jawabdeyh) December 2, 2022
لیکن جو مقبولیت عمران اسلم کو ' روزی' سے ملنی چاہیے تھی وہ انہیں نہیں ملی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہوں نے یہ ڈرامہ عمران سلیم کے نام سے تحریر کیاتھا۔ کیوں کہ اس وقت جہاں وہ کام کرتے تھے وہاں باہر کام کرنا منع تھا۔ دوسرا معین اختر کی اداکاری کی وجہ سے یہ ڈرامہ صرف انہی کی وجہ سے لوگوں کو یاد رہا۔
انہوں نے صرف ایک فلم 'پرے ہٹ لو' لکھی جو ریلیز بھی ہوئی اور مقبول بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی غیر موجودگی میں انہوں نے کامیڈی شو 'ہم سب امید سے ہیں' کے بھی کچھ خاکے تحریر کیے جو بے حد مشہور ہوئے۔
عمران اسلم کے انتقال سے پاکستان ایک صحافی، اداکار،ڈرامہ نگار اور وائس اوورآرٹسٹ سے تو محروم ہوا ہی، ساتھ ہی ساتھ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک شفیق استاد اور دوست سے بھی محروم ہوگئے۔
I met Imran Aslam first in my theater days. When @thenews_intl was launched on February 11, 1991, he was my first news editor. He was a wordsmith. Imran’s wit, punchlines and quality of jokes was unmatched. I have lost a friend with over 3 decades friendship. Remember his smiles. pic.twitter.com/U01WCOSBud
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) December 2, 2022
دفتر میں وہ ہم سب کے لیے ’باس‘ تھے۔ لیکن میرا ان کا تعلق دفتری سے زیادہ کتابی تھا۔ جب کوئی نئی کتاب آتی تھی اور میں اس پر تبصرہ کرتا تو وہ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرتے اور اپنی رائے دیتے تھے،۔ایک بار تو انہوں نے میرے سپروائزر سے کہا کہ' یہ پاگل ہے، کتاب پڑھتا ہے۔'
ایسے تھے عمران اسلم، جو کبھی باس، کبھی ایک کتاب دوست، کبھی صداکار و اداکار اور سب سے بڑھ کر دوسروں کو سکھانے والے سینئر کے طور پر یاد آتے رہیں گے۔