پیپلز پارٹی کا ملا منصور کے معاملے پر بحث کا مطالبہ

تحریک التوا جمع کرانے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ طالبان کے رہنما ملا اختر منصور یہاں نہیں ہیں۔

پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت پیپلزپارٹی نے پیر کو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں تحریک التوا جمع کروائی ہے جس میں ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں طالبان کے رہنما ملا منصور کو ڈورن سے نشانہ بنانے کے معاملے پر بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تحریک التوا جمع کرانے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ طالبان کے رہنما ملا اختر منصور یہاں نہیں ہیں۔

’’ملا منصور وہ شخص تھے جن کے بارے میں ابھی تک ہمارا سرکاری موقف یہی ہی رہا ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں اور نا ہی ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔ اگر ملا منصور ہی مارا گیا ہے تو پھر ہمارے سارے دعوے غلط ہوتے ہیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے کے پاکستان اور خطے پر گہرے اثرات ہوں گے۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ اسامہ بن لادن کے (ایبیٹ آباد میں امریکہ اسپیشل فورسز کے آپریشن میں مارے جانے) کے واقعے کے پانچ سال بعد ایک مرتبہ اگر ایسی بات ہوئی کہ جس شخص کی تلاش تھی، جس کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ ہم اُسے نہیں جانتے، وہ اگر ہمارے ہی علاقے میں ڈرون حملے میں مارا گیا تو بڑے سوالات پیدا ہوں گے۔‘‘

پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ولی محمد نامی شخص جس کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تھا، 21 مئی کو تفتان کی سرحدی گزرگاہ سے پاکستان میں داخل ہوا اور اس کے پاسپورٹ پر ایران کا ویزہ لگا ہوا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ وہ تفتان سے کرائے پر حاصل کی جانے والی ایک گاڑی میں سفر کر رہا تھا جو کہ بلوچستان کے کوچاکی کے علاقے میں تباہ شدہ حالت میں ملی۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر وہ شناختی کارڈ ملا منصور کو جاری کیا گیا تو اس سے بھی کئی سوالات جنم لیں گے۔

’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو یہ شخص مارا گیا ہے کہ اگر واقعی یہ ملا منصور تھا کہ تو اُس کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کس نے بنا کر دیا ۔۔۔ کیا یہ ایران گیا تھا یا ایران سے آگے گیا اور واپس آ رہا تھا۔۔۔ تو یہ بڑے گھمبیر سوالات ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان سامنا کرنا چاہیئے اور سوالات ڈھونڈنے چاہیں۔‘‘

افغان اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان حالات میں پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

’’پہلے تو کچھ سال تک پاکستان ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ طالبان رہنما پاکستان میں ہیں، حقانی نیٹ ورک کے لوگ پاکستان میں ہیں ۔۔۔۔ لیکن ابھی کچھ مہینے پاکستان نے پہلی بار مانا جب سرتاج عزیز نے امریکہ کے دورے میں کہا کہ واقعی افغان طالبان رہنما اور ان کے خاندان کے لوگ پاکستان میں ہیں اور یہی ذریعے ہے کہ پاکستان ان پر اثر انداز ہو ۔۔۔ اس لیے پاکستان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان پر اپنا اثروروسوخ استعمال کرے اور ان کو مذاکرات کی میز پر لائے ورنہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔‘‘

امریکہ کے صدر براک اوباما نے پیر کو ایک بیان افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کو افغانستان میں امن اور خوشحالی لانے کی کوششوں کے سلسلے میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے افغان حکومت کی طرف سے سنجیدہ مذاکرات کی کوششوں کو ملا منصور نے مسترد کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ طالبان امن کے حصول کے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور طویل تنازع کے خاتمے کے حقیقی راستے پر چلتے ہوئے افغان حکومت کے امن و مصالحت کے عمل میں شمولیت اختیار کریں۔

لیکن بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت سے طالبان میں ناصرف قیادت کے معاملے پر اختلافات گہرے ہو سکتے ہیں بلکہ اس سے امن کی کوششوں کو بھی وقتی طور پر دھچکا لگے گا۔