پی پی پی پھر مشکل میں

پی پی پی پھر مشکل میں

پاکستان کے سیاسی پیش منظر میں ایک مرتبہ پھر ہلچل دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ ہلچل منگل کو اس وقت عین عروج پر پہنچ گئی جب پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ناراضگی کے باعث مسلم لیگ ق کے وزرا ء نے پارٹی سربراہ کو استعفے پیش کئے جبکہ اپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کیلئے درخواست اسپیکرقومی اسمبلی کوبھجوادی گئی ۔ ان استعفوں کی وجہ حکومت پر عدم اعتماد بتائی جارہی ہے ۔
استعفے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو پیش کئے گئے۔وفاقی وزیر فیصل صالح حیات کے مطابق استعفے جمع کرانے والوں میں ان کے ساتھ ساتھ چوہدری پرویز الٰہی ، غوث بخش مہر، شیخ وقاص،ریاض پیرزادہ اور چوہدری وجاہت حسین شامل ہیں۔
وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اب ق لیگ مزید پیپلزپارٹی کی حکومتی ناکامیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ، مسائل کے حل میں حکومت سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ہم نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کے لئے درخواست بھی اسپیکر اسمبلی کو بھجوا دی ہے ۔
مسلم لیگ کے اہم رہنما کامل علی آغا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ق کے وزراء کی موجودہ صورتحال پر تشویش فطری ہے ، حکومت میں شامل جماعت سے عوامی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور جب عوامی نمائندہ توقعات پر پورا نہیں اترتا تو عوام میں بے چینی پھیل جاتی ہے۔
میڈیا سے بات چیت میں استعفے دینے والے ارکان کا کہنا ہے کہ حکومتی رویے پران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے وعدے ایفا نہیں کیے ، ہمارے وزراء کو بار بار کی یقین دہانی کے باوجود ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے جس کے باعث عوام کی ناراضگی یقینی ہے ۔ ایم ای ایف کے ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ، لہذا ان کے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ناراض وزراء کا کہنا ہے کہ استعفے ہی ایک ایسا راستہ ہے جس سے وہ آئندہ انتخابات میں عوام کا سامنا کرسکیں گے ۔
اھر پارلیمانی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ مسائل میں گھری پیپلزپارٹی کو اگر مسلم لیگ ق کا سہارا نہ ہوتا تو کراچی اور کوئٹہ میں امن وامان کی صورتحال پر پیپلزپارٹی کو سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ، مسلم لیگ ق کی وجہ سے پانچ ماہ سے برا وقت ٹل رہا ہے ۔

مسلم لیگ ق کی اہمیت
واضح رہے کہ مسلم لیگ ق کے چودہ ارکان حکومت میں بطور وزیر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔دو مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن نے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کردی تھیں تاہم اسی روز مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں شمولیت اس بات کی ضامن بن گئی تھی کہ حکومت ان مشکلات کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑی رہے گی اور اس کو کوئی خطرہ نہیں ۔
اس کے بعد کراچی میں امن کی بگڑی ہوئی صورتحال میں بھی ق لیگ کی بدولت حکومت پر کوئی آنچ نہیں آئی ۔ قدرتی آفات اور پاک امریکہ کشیدگی بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کا تاثر ، بدعنوانی ، مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر مسائل پر بھی ق لیگ کے ہوتے ہوئے اپوزیشن حکومت کے متعلق بیان بازی تک ہی محدود رہی ۔

ایم کیو ایم کو منانے کی سرتوڑ کوششیں
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ق کے وزراء کے پارٹی قیادت کو استعفوں کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی حرکت میں آ چکے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ ق کی قیادت کو تین روز میں مسائل کے حل کی یقین دہانی کروا دی ہے تاہم دوسری جانب پیپلزپارٹی نے اپنی پرانی اتحادی ایم کیو ایم کو منانے کی سر توڑ کوششیں بھی تیز کر دی ہیں ۔صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کو منانے کے مشن پر سابق وفاقی وزیر بابر اعوان اپنے ہدف کے حصول کیلئے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں ۔
پیر کو بابر اعوان اور آغا سراج درانی کی گورنر سندھ سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما حیدرعباس رضوی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو وہ حکومت میں شمولیت کا سوچ سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بدھ کو صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان امن و امان کی صورتحال پر بریفنگ دینے خود گورنر ہاؤس پہنچ گئے ۔ اس موقع پر میڈیا میں گورنر سندھ کا شہر میں امن و امان کی صورتحال پر اعتماد کا اظہار اس بات کا ضامن ہے کہ ایم کیو ایم حکومت میں آنے کیلئے تیار ہے ۔ گورنر سندھ نے توقع ظاہر کی کہ امن و امان کی صورتحال میں یہ بہتری آئی ہے وہ دیر پا ثابت ہو گی ۔

متحدہ کی رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب
متحدہ قومی موومنٹ نے موجودہ تناظر میں رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج خورشید بیگم ہال میں طلب کرتے ہوئے اپنے تمام اراکین اسمبلی کوقومی اسمبلی کا اجلاس چھوڑ کر کراچی طلب کرلیا ہے۔ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے سینئر رہنما حیدرعباس نے کہا تھا کہ کراچی میں امن قائم کرنے کی شرط پر متحدہ قومی موومنٹ حکومت میں شامل ہوسکتی ہے۔اس تمام صورتحال کے باوجود سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کو اپوزیشن اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے آئندہ چند روز میں ایک اورکڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

نون لیگ کا حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے کا فیصلہ
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے اخباری بیانات کے مطابق وہ بھی حکومت کے خلاف موثر اور فیصلہ کن تحریک چلانے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ وہ پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام کے غم و غصہ کا رخ پیپلزپارٹی کی طر ف موڑنے کیلئے سرگرم ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ اس تحریک میں شمولیت کے لئے مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو بھی دعوت دی جائے گی ۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں سے رابطوں کیلئے سینیٹر اسحاق ڈار ، راجہ ظفر الحق ، سید غوث علی شاہ اور اقبال ظفر جھگڑا کو ٹاسک دیا گیا ہے ۔