امریکہ میں کرونا وائرس کی دو ممکنہ ویکسینز کی وسیع پیمانے پر حتمی آزمائش کا آغاز کر دیا گیا ہے، تاکہ ان کے محفوظ اور موثر ہونے کا یقین کیا جا سکے۔
امریکی بایوٹیک فرم موڈرنا کی ویکسین کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزز نے تیار کیا ہے اور اس کی پہلی خوراک جارجیا کے شہر سوانا میں پیر کو پہلے رضاکار کو دی گئی۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر 30 ہزار صحت مند رضاکاروں کو یہ ویکسین کئی ہفتوں کے وقفے سے دو بار لگائی جائے گی۔
اس سے پہلے ہوئی آزمائش میں کسی رضاکار کو سخت مضر اثرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، لیکن نصف سے زیادہ افراد میں معمولی یا درمیانے درجے کے اثرات دیکھنے میں آئے تھے۔ ان میں تھکن، سردرد، ٹھنڈ، پٹھوں میں درد اور ٹیکے کے مقام پر درد جیسی شکایات شامل تھیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزز کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے صحافیوں کو بتایا کہ آخری مرحلے کی آزمائش کے ابتدائی نتائج نومبر تک معلوم ہوجائیں گے۔ اگر آزمائش کامیاب رہی تو موڈرنا ہر سال ویکسین کی 50 کروڑ خوراکیں فراہم کرے گی، جبکہ اسے امید ہے کہ وہ سالانہ ایک ارب خوراکیں بنانے کے قابل ہوجائے گی۔
موڈرنا این آئی اے آئی کی ویکسین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آپریشن وارپ اسپیڈ کا حصہ ہے جس کا مقصد جنوری تک کسی منظور شدہ ویکسین کی 30 کروڑ خوراکیں فراہم کرنا ہے۔ موڈرنا کو اس پروگرام کے تحت تقریباً ایک ارب ڈالر ملے ہیں جن میں 47 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا وعدہ اتوار کو آخری آزمائش کے لیے کیا گیا۔
دوسری تجرباتی ویکسین امریکی کمپنی فائزر نے تیار کی ہے جس میں اسے جرمنی کی بایو این ٹیک کا تعاون حاصل ہے۔ یہ ویکسین امریکہ، برازیل، ارجن ٹینا اور جرمنی میں 30 ہزار افراد کو دی جائے گی۔ فائزر کی تحقیق آپریشن وارپ اسپیڈ کا حصہ نہیں لیکن امریکی انتظامیہ نے اس کی ویکسین محفوظ اور موثر ثابت ہونے کی صورت میں 10 کروڑ خوراکوں کے عوض ایک ارب 95 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
دونوں منصوبوں کے ماہرین ویکسین کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے میسنجر آر این اے نام کے عمل پر بھروسہ کررہے ہیں۔ میسنجر آر ین اے یا ایم آر این اے کی وجہ سے جسم میں کرونا وائرس جیسا پروٹین بنتا ہے جسے مدافعتی نظام بیرونی حملہ آور سمجھ شناخت کرلیتا ہے۔ اس کے بعد اگر حقیقی وائرس حملہ کرتا ہے تو مدافعتی نظام جسم کو اس سے بچانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
ابھی تک میسنجر این آر اے کو استعمال کرکے کوئی نئی ویکسین نہیں بنائی گئی لیکن اس میں روایتی طریقوں کی نسبت کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسس کولنز کا کہنا ہے کہ سال کے آخر تک محفوظ اور موثر ویکسین کو تقسیم کرنا مشکل ہدف ہے لیکن یہ امریکی عوام کی خاطر متعین کیا جانے والا درست مقصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت کو ان گروہوں سے رضاکاروں کی تلاش ہے جو کرونا وائرس سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان میں افریقن امریکی، ہسپانوی، مقامی امریکی اور معمر افراد شامل ہیں۔
انھوں نے اصرار کیا کہ ویکسین بنانے کے عمل میں تیزی کے باوجود اس کے محفوظ ہونے کے سوال پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ سو ممکنہ ویکسینز پر مختلف مرحلوں میں تجربات جاری ہیں۔ جلد مزید تین ویکسینز 30 ہزار افراد پر آخری مرحلے کی آزمائش شروع کرنے والی ہیں۔ ان میں سے ایک امریکی بایوٹیک کمپنی نوواویکس اور دوسری دواساز ادارے جانسن اینڈ جانسن نے بنائی ہے۔ تیسری آکسفرڈ یونیورسٹی اور امریکی کمپنی آسٹرازینیکا کے اشتراک سے تیار ہوئی ہے۔ یہ تینوں کمپنیاں آپریشن وارپ اسپیڈ کا حصہ ہیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ 64 لاکھ افراد کرونا وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں جن میں سے 6 لاکھ 54 ہزار ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ میں کیسز کی تعداد 42 لاکھ اور اموات کی تعداد ایک لاکھ 48 ہزار سے زیادہ ہے۔