عیسائی مذہب کے فرقے 'کیتھولک' کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ ترکی کے آیا صوفیہ کو میوزیم سے دوبارہ مسجد بنانے کے فیصلے پر شدید دکھ ہوا ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ پر اپنی ہفتہ وار عبادت کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خیالات استبول تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے سانتا صوفیہ کے بارے میں سوچا ہے اور مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ ترک کے صدر رجب طیب اردوان کہہ چکے ہیں کہ آیا صوفیہ میں 24 جولائی سے باقاعدہ نماز اداکی جائے گی۔
طیب اردوان کا یہ اعلان عدالت کے اس فیصلے کے بعد سامنے آیا تھا جس میں عدالت نے آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
دی ورلڈ کونسل آف چرچز کی جانب سے بھی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔
ترک صدر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 1500 سال قدیم جو کبھی ایک چرچ تھا، ہمیشہ مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے کھلا رہے گا۔
انہوں نے آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے کے ترکی کے فیصلے کو اس کی خود ختاری کا حق استعمال کرنے سے تعبیر کیا تھا جب کہ ان کے اس فیصلے پر تنقید کو ترکی کی آزادی پر حملہ قرار دیا تھا۔
یونان کی جانب سے ترکی کے اس فیصلے کی پہلے کی مذمت کی جا چکی ہے جب کہ عالمی ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے فیصلے پر کہا ہے کہ ثقافتی ورثے کی عالمی کمیٹی اس فیصلے کا جائزہ لے گی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ترک حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ترکی آیا صوفیہ کو میوزیم ہی رہنے دے۔
یونیسکو کی 'عالمی تاریخی مقامات' کی فہرست میں شامل آیا صوفیہ بنیادی طور پر گرجا گھر تھا جسے خلافتِ عثمانیہ میں مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا۔
ترک انقلاب کے بعد 80 سال قبل اسے میوزیم بنایا گیا تھا جس کے بعد یہاں عبادت پر پابندی عائد تھی۔
استنبول میں واقع آیا صوفیہ کی تعمیر کا حکم بازنطینی حکومت میں 532 میں دیا گیا تھا۔ 537 میں اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد گرجا گھر میں عیسائیوں کی مذہبی رسومات منعقد کی گئیں اور اگلے 900 سال تک آیا آیا صوفیہ گرجا گھر رہا۔
عثمانی فوجوں نے استنبول شہر پر 1453 میں قبضہ کیا تو اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ استنبول شہر میں 1616 میں سلطان احمد مسجد جسے 'بلیو موسک' یعنی نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے، کی تعمیر تک آیا صوفیہ شہر کی مرکزی مسجد تھی۔
بعد ازاں جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفیٰ کمال اتا ترک کے حکم پر آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا جسے 1935 میں عوام کے لیے کھولا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال لگ بھگ 30 لاکھ سیاح آیا صوفیہ دیکھنے آتے ہیں۔