بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ کارڈنلز اس نکتے پر بھی بحث کریں گے کہ کیا وقت آ گیا ہے جب کسی ایسے شخص کو پوپ منتخب کیا جائے جو یورپی نہ ہو۔
واشنگٹن —
پوپ ایمریٹس بینڈکٹ شانز دہم نے گذشتہ ماہ پوپ کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے عہد کیا ہے کہ ایک اعشاریہ دو ارب رومن کیتھولک ارکان پر مشتمل چرچ کے سربراہ کی حیثیت سے جو بھی ان کی جگہ لے گا، وہ غیر مشروط طور پر اس کا احترام ا ور اطاعت کریں گے۔
کارڈنلز کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ویٹیکن کے ماہرین سوچ رہے ہیں کہ کارڈنلز کے خیال میں رومن کیتھولک چرچ کی قیادت کے لیے کس قسم کے پوپ سب سے زیادہ موزوں ہوں گے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے فادر تھامس ریس کہتے ہیں کہ کارڈنلز کو ایسی شخصیت کی تلاش ہوگی جو کیتھولک مذہب کا پیغام سب سے اچھی طرح پیش کر سکے۔ ’’اہم ترین چیز یہ ہے کہ انجیلِ مقدس کی تبلیغ کس طرح کی جائے کہ یہ اکیسویں صدی میں ، خاص طور سے نوجوانوں کے لیے، پُر کشش بن جائے اور ان کی سمجھ میں بھی آئے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ اور امریکہ میں، نوجوان طبقہ مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے، صرف کیتھولک مذہب سے ہی نہیں، بلکہ عیسائیت اور دوسرے مذاہب سے بھی۔ لہٰذا ، اصل چیلنج یہ ہے کہ یسوع مسیح کے پیغام کو، جو بڑا پُر کشش اور ولولہ انگیز ہے، اس طرح پیش کیا جائے کہ لوگ اس سے بر گشتہ نہ ہوں۔‘‘
شکاگو کی منڈلیئن سمیناری کے فادر رابرٹ بارون کہتے ہیں کہ دوسرے الفاظ میں کارڈنلز کو ایسے شخص کی تلاش ہوگی جسے عیسائیت کی تبلیغ میں ملکہ حاصل ہو۔
’’جب آپ یہ کہتے ہیں تو آپ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جو دینیات کا ماہر ہو، جسے اپنے بات دوسروں تک پہنچانے کا فن آتا ہو، جو بہت سی زبانیں جانتا ہو۔ یہ سب چیزیں صحیح ہیں لیکن اصل کسوٹی یہ ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کا مبلغ ہو، جو ساری دنیا میں انجیل کا پیغام موئثر طریقے سے پہنچا سکے۔‘‘
بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ کارڈنلز اس نکتے پر بھی بحث کریں گے کہ کیا وقت آ گیا ہے جب کسی ایسے شخص کو پوپ منتخب کیا جائے جو یورپی نہ ہو۔ دنیا کے بیالیس فیصد کیتھولک جنوبی امریکہ میں رہتے ہیں، اور چوبیس فیصد افریقہ میں، جہاں چرچ ترقی کر رہا ہے۔
لیکن ماہرین اس طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ نصف سے زیادہ کارڈنلز یورپی ہیں۔ اس طرح پوپ کے انتخاب میں ان کا پلہ بھاری رہتا ہے ۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ کارڈنلز کو ایسے شخص کی تلاش ہوگی جو اچھا منتظم ہو اور جو ویٹیکن کی بیوروکریسی میں اصلاحات کر سکے۔ تا ہم فادر تھامس ریس کو شبہ ہے کہ یہ مقصد حاصل ہو سکے گا ۔ ’’ویٹیکن کی بیوروکریسی میں اصلاح کرنے کی باتیں کئی عشروں سے ہو رہی ہیں، لیکن کوئی بھی پوپ یہ مقصد حاصل نہیں کر سکا ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک طرف کارڈنلز کے درمیان یہ بحث ہو رہی ہے کہ پوپ کے عہدے کے لیے کون سب سے زیادہ موزوں ہے، اور دوسری طرف، سابق پوپ بینڈکٹ شانز دہم اس مقام کے بالکل نزدیک ہی رہ رہے ہیں جہاں دوسرے پوپ کے انتخاب کی کارروائی ہو رہی ہے ۔ بعض ماہرین پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ مستقبل میں ویٹیکن کے امور میں کوئی کردار ادا کریں گے؟‘‘
لیکن نیو جرسی کی Keane University کے پروفیسر کرس بیلیٹو کہتے ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ ’’اگر پوپ اس معاملے میں دخل دینے کے خواہشمند ہوتے، تو وہ استعفیٰ نہ دیتے ۔ مداخلت کرنا ان کا اسٹائل ہی نہیں ہے ۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی چرچ کے لیے وقف کر دی ہے ۔ اگر وہ دخل اندازی کرتے، تو اس سے چرچ کے ادارے کو نقصان پہنچتا۔ میرے خیال میں ان کی طرف سے مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے ۔‘‘
فادر ریس کہتے ہیں کہ بینیڈکٹ اپنے کمرے اور اپنی لائبریری میں بالکل مطمئن ہیں ۔ ’’سوال یہ ہے کہ کیا وہ تصنیف و تالیف کا کچھ کام کریں گے؟ ۔ اگر وہ کچھ لکھتے ہیں، تو پھر یہ اندیشہ ہمیشہ رہے گا کہ لوگ ان کی تحریر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ بینڈکٹ تو یہ کہہ رہے ہیں، لیکن نئے پوپ کا خیال کچھ اور ہے ۔ اور چرچ کے لیے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔‘‘
فادر بارون یہ بات مانتے ہیں کہ سابق پوپ چرچ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔ لیکن وہ بینڈکٹ کے استعفیٰ دینے کے فیصلے سے مطمئن نہیں۔ ’’مجھے کچھ تشویش ہے کہ اس فیصلے سے ایک روایت قائم ہو جائے گی۔ اگر پوپ استعفیٰ دینے لگیں یا رٹائر ہونے لگیں، تو کون جانے مستقبل میں اس سے کیا مسائل پیدا ہوں۔ لہٰذا میرے خیال میں یہ بڑی عجیب سے بات ہے، اور چرچ کے لیے اس سے یقیناً کوئی اچھی روایت قائم نہیں ہوتی ۔ لیکن یہ سابق پوپ، میرے خیال میں، اس معاملے میں کوئی مسائل کھڑے نہیں کریں گے۔‘‘
پوپ ایمریٹس بینڈکٹ شانز دہم آج کل روم کے نواح میں کاسل گاندولفو میں رہ رہے ہیں اور ویٹیکن کی چار دیواری میں، اپنی مستقل رہائش گاہ میں منتقل ہونے کے انتظار میں ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ نئے پوپ کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیوں کہ ان کی عمر 80 برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ وہ حد ہے جو پوپ کے انتخاب کے لیے کارڈنلز کے ووٹ ڈالنے کے لیے قائم کی گئی ہے ۔
کارڈنلز کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ویٹیکن کے ماہرین سوچ رہے ہیں کہ کارڈنلز کے خیال میں رومن کیتھولک چرچ کی قیادت کے لیے کس قسم کے پوپ سب سے زیادہ موزوں ہوں گے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے فادر تھامس ریس کہتے ہیں کہ کارڈنلز کو ایسی شخصیت کی تلاش ہوگی جو کیتھولک مذہب کا پیغام سب سے اچھی طرح پیش کر سکے۔ ’’اہم ترین چیز یہ ہے کہ انجیلِ مقدس کی تبلیغ کس طرح کی جائے کہ یہ اکیسویں صدی میں ، خاص طور سے نوجوانوں کے لیے، پُر کشش بن جائے اور ان کی سمجھ میں بھی آئے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ اور امریکہ میں، نوجوان طبقہ مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے، صرف کیتھولک مذہب سے ہی نہیں، بلکہ عیسائیت اور دوسرے مذاہب سے بھی۔ لہٰذا ، اصل چیلنج یہ ہے کہ یسوع مسیح کے پیغام کو، جو بڑا پُر کشش اور ولولہ انگیز ہے، اس طرح پیش کیا جائے کہ لوگ اس سے بر گشتہ نہ ہوں۔‘‘
شکاگو کی منڈلیئن سمیناری کے فادر رابرٹ بارون کہتے ہیں کہ دوسرے الفاظ میں کارڈنلز کو ایسے شخص کی تلاش ہوگی جسے عیسائیت کی تبلیغ میں ملکہ حاصل ہو۔
’’جب آپ یہ کہتے ہیں تو آپ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جو دینیات کا ماہر ہو، جسے اپنے بات دوسروں تک پہنچانے کا فن آتا ہو، جو بہت سی زبانیں جانتا ہو۔ یہ سب چیزیں صحیح ہیں لیکن اصل کسوٹی یہ ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کا مبلغ ہو، جو ساری دنیا میں انجیل کا پیغام موئثر طریقے سے پہنچا سکے۔‘‘
بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ کارڈنلز اس نکتے پر بھی بحث کریں گے کہ کیا وقت آ گیا ہے جب کسی ایسے شخص کو پوپ منتخب کیا جائے جو یورپی نہ ہو۔ دنیا کے بیالیس فیصد کیتھولک جنوبی امریکہ میں رہتے ہیں، اور چوبیس فیصد افریقہ میں، جہاں چرچ ترقی کر رہا ہے۔
لیکن ماہرین اس طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ نصف سے زیادہ کارڈنلز یورپی ہیں۔ اس طرح پوپ کے انتخاب میں ان کا پلہ بھاری رہتا ہے ۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ کارڈنلز کو ایسے شخص کی تلاش ہوگی جو اچھا منتظم ہو اور جو ویٹیکن کی بیوروکریسی میں اصلاحات کر سکے۔ تا ہم فادر تھامس ریس کو شبہ ہے کہ یہ مقصد حاصل ہو سکے گا ۔ ’’ویٹیکن کی بیوروکریسی میں اصلاح کرنے کی باتیں کئی عشروں سے ہو رہی ہیں، لیکن کوئی بھی پوپ یہ مقصد حاصل نہیں کر سکا ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک طرف کارڈنلز کے درمیان یہ بحث ہو رہی ہے کہ پوپ کے عہدے کے لیے کون سب سے زیادہ موزوں ہے، اور دوسری طرف، سابق پوپ بینڈکٹ شانز دہم اس مقام کے بالکل نزدیک ہی رہ رہے ہیں جہاں دوسرے پوپ کے انتخاب کی کارروائی ہو رہی ہے ۔ بعض ماہرین پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ مستقبل میں ویٹیکن کے امور میں کوئی کردار ادا کریں گے؟‘‘
لیکن نیو جرسی کی Keane University کے پروفیسر کرس بیلیٹو کہتے ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ ’’اگر پوپ اس معاملے میں دخل دینے کے خواہشمند ہوتے، تو وہ استعفیٰ نہ دیتے ۔ مداخلت کرنا ان کا اسٹائل ہی نہیں ہے ۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی چرچ کے لیے وقف کر دی ہے ۔ اگر وہ دخل اندازی کرتے، تو اس سے چرچ کے ادارے کو نقصان پہنچتا۔ میرے خیال میں ان کی طرف سے مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے ۔‘‘
فادر ریس کہتے ہیں کہ بینیڈکٹ اپنے کمرے اور اپنی لائبریری میں بالکل مطمئن ہیں ۔ ’’سوال یہ ہے کہ کیا وہ تصنیف و تالیف کا کچھ کام کریں گے؟ ۔ اگر وہ کچھ لکھتے ہیں، تو پھر یہ اندیشہ ہمیشہ رہے گا کہ لوگ ان کی تحریر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ بینڈکٹ تو یہ کہہ رہے ہیں، لیکن نئے پوپ کا خیال کچھ اور ہے ۔ اور چرچ کے لیے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔‘‘
فادر بارون یہ بات مانتے ہیں کہ سابق پوپ چرچ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔ لیکن وہ بینڈکٹ کے استعفیٰ دینے کے فیصلے سے مطمئن نہیں۔ ’’مجھے کچھ تشویش ہے کہ اس فیصلے سے ایک روایت قائم ہو جائے گی۔ اگر پوپ استعفیٰ دینے لگیں یا رٹائر ہونے لگیں، تو کون جانے مستقبل میں اس سے کیا مسائل پیدا ہوں۔ لہٰذا میرے خیال میں یہ بڑی عجیب سے بات ہے، اور چرچ کے لیے اس سے یقیناً کوئی اچھی روایت قائم نہیں ہوتی ۔ لیکن یہ سابق پوپ، میرے خیال میں، اس معاملے میں کوئی مسائل کھڑے نہیں کریں گے۔‘‘
پوپ ایمریٹس بینڈکٹ شانز دہم آج کل روم کے نواح میں کاسل گاندولفو میں رہ رہے ہیں اور ویٹیکن کی چار دیواری میں، اپنی مستقل رہائش گاہ میں منتقل ہونے کے انتظار میں ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ نئے پوپ کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیوں کہ ان کی عمر 80 برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ وہ حد ہے جو پوپ کے انتخاب کے لیے کارڈنلز کے ووٹ ڈالنے کے لیے قائم کی گئی ہے ۔